مکاتبت سلیمان |
|
آگے ان سے خلو ذہن کا غیر مقدور ہونا فرماتے ہیں ؎ بندہ نشکیبد تصویر خوشت ہر دمت گوید کہ جانم مفرشت اور حدیث کا جو مفہوم صحیح ہے خلاف مشہور وہ ہنوز محتاج تحقیق ہے، اس وقت اس سے تعرض نہیں کیا گیا۔ مضمون :- از ہیچمداں بحضرت اقدس متعنا اللہ تعالی بفیوضہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ صحیفہ ٔ شریفہ نے سعادت اندوز کیا، ذات بحت کے تصور بلا کیف کی نسبت کلام تھا، اس ہیچمداں نے حدیث ’’اعبد ربک کانک تراہ‘‘ کا جو مطلب سمجھا تھا حسب ارشاد عرض کیا تھا، اس پر حضرت نے اس کو معالجہ کے درجہ میں صواب اور صحیح فرمایا، اور تحقیق کے درجہ میں اس کو ناکافی فرمایا اور ارشاد ہوا کہ اگر چہ تصور ذات کا بلا کیف عادۃً ممتنع ہے مگر کیف کا تلبس اختیار سے خارج ہے لہذا عفو ہے، نصوص اس پر قائم ہیں پھر مثنوی کے چند شعر سپرد قلم فرمائے ؎ انت کالریح ونحن کالغبار تختفی الریح وغبراہ جہار اور آخر ؎ اے بروں ازہم وقال قیل من خاک بر فرق من وتمثیل من خاکسارنے مثنوی کی جلد خامس سے یہ اشعار نکال کر پڑھے اور مولانا کے مطالب کو ذہن نشین کیا، ان تمام تمثیلات میں یہ بات دکھائی گئی ہے کہ ذات باری تعالی مخفی اور اس کے آثار پیدا ہیں ۔