مکاتبت سلیمان |
|
پا جانے کی تفصیل دریافت فرمائی جواباً عرض ہے۔ مجھے اشکال یہ تھا کہ مذکور یعنی ذات بحت الہی تصور میں بلا کیف کیوں کر آسکتا ہے نور محض کا تصور کیا جائے تو وہ بھی ایک شکل ہ اور ’’لیس کمثلہ‘‘ کے خلاف ہے۔مولانا عیسیٰ صاحب کے محض اس حدیث پڑھ دینے سے اس حدیث کا جو مطلب معلوم تھا سامنے آگیا یعنی یہ کہ مطلق رابطہ ٔ علمی پس پردہ ہیبت وجلال وعظمت وکبریائی کے تصور سے اپنے اندر اس کا علمی تعلق اور معیت اور پھر اس کے پس پردہ ہیبت وجلال وعظمت وکبریائی کے تصور سے اپنے اندر خضوع وتذلل محسوس کیاجائے ، اس کی ایک مثال یوں ذہن میں آتی ہے کہ بادشاہ حاکم اپنے پورے جاہ وجلال اور عظمت کے ساتھ گو پس پردہ ہو مگر رعایا پر اس کے دیکھے بغیر ہیبت اور رعب جلال اور خضوع طاری ہوجاتا ہے ، اب حضرت اس کی تصویب یا تصحیح فرمادیں ۔ جواب :- معالجہ کے درجہ میں صواب اور صحیح ہے اور تحقیق کے درجہ میں ہنوز اس میں کلام ہے کہ وہ اشکال اس سے کیسے رفع ہوا کیوں کہ یہ خاص مراقبہ محمول ہے ایک موضوع کا اور ثبوت شیٔ للشیٔ فی الذہن فرع ہے ثبوت مثبت لہ فی الذہن کی اور یہی محمل تھا اشکال کا۔ فالاشکال باق، اور تحقیق کے درجہ میں اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ تصور ذات کا بلا کیف عادۃ ممتنع ہے، مگر کیف کا تلبس اختیار سے خارج ہے لہذا عفو ہے۔ نصوص اس پر قائم ہیں ۔ مولانا نے اسی کو بیان فرمایا ہے کہ اول بعض تمثیلات کا ذکر کیا مثلاً انت کالریح ونحن کالغبار تختفی الریح وغبراہ جھار اور بھی متعدد تمثیلات ہیں جو اس وقت یاد نہیں آگے ان سے تنزیہ کا ذکر ہے اے بروں از دہم وقال قیل من خاک بر فرق من وتمثیل من