مکاتبت سلیمان |
|
مشہور حکیم ابوریحان بیر ونی کہتا ہے کہ: ’’ سوف یونانی میں حکمت کو کہتے ہیں ، اور اسی سے فیلسوف کو یونانی میں ’’پیلاسوپا‘‘ کہتے ہیں ، یعنی حکمت کا عاشق ، چونکہ اسلام میں بعض لوگ ان کے قریب گئے ، اس لئے وہ بھی اس نام (صوفیہ)سے پکارے گئے ‘‘۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ اپنے رسالہ (فی السماع والرقص) میں لکھتے ہیں : ’’ اور ابن سینا نے ایک فلسفہ پیدا کیا ، جس کو اس نے پہلے کے یونانی فلاسفہ اور (مسلمانوں میں سے) بدعتی متکلمین جھمیہ وغیرہ کے خیالات سے ملا کر بنایا تھا ، اور بہت سی علمی اور عملی باتوں میں وہ اسماعیلی ملحدوں کے راستے پر چلا ، اور کچھ باتیں اس میں صوفیہ کی ملادیں جو حقیقت میں اس کے ہم خیال اسماعیلی قرامطہ باطنیہ کے خیالات سے ماخوذ تھیں ، کیونکہ اب سینا کے اہل خاندان مصر کے حاکم بامراللہ (فاطمی اسماعیلی) کے پیروں میں تھے یہ لوگ اسی زمانہ میں تھے ، اور انکا مذہب رسائل اخوان الصفا والوں کا مذہب تھا ‘‘۔ حاجی خلیفہ چلپی ’’ کشف الظنون ‘‘ میں تصوف کے ضمن میں لکھتا ہے : ’’ اور جاننا چاہئے کہ حکمائے الٰہیات میں سے اشراقی مشرب اور اصطلاح میں صوفیوں کے مانند ہیں ، خصوصاً ان میں سے پچھلے (اشراقی) لیکن فرق صرف ان مسائل میں ہے جن میں اشراقیہ کا مذہب اسلام کے مخالف ہے ، اور یہ کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ اصطلاح(تصوف) انہیں کی اصطلاح (سوف) سے ماخوذ ہو، جیسا کہ اس شخص سے چھپا نہیں ہے جس نے اشراقی فلسفہ کی کتابیں دیکھی ہیں ‘‘۔ ان حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ فلسفیانہ تصوف ، فلسفہ اشراق، جدید افلاطونی الٰہیات اور اخوان الصفا کی تاویلات ایک ہی سر چشمہ کی دھاریں ہیں ‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کو اسی فلسفیانہ تصوف سے اختلاف تھا اور