مکاتبت سلیمان |
|
حضرت مجدد صاحب کا یہ مسلک اخیر مسلک نہیں اخیر مسلک وہی وحدۃ تنزیہ ہے جس پر شرح وارد ہے ،کما فی المکتوبات۔ ہمارے حضرات کے یہاں وحدۃ الوجود کا تصور ایک حالی کیفیت ہے جس کی نظر میں اللہ تعالیٰ کی محبت وعظمت وجلالت اتنی چھاجائے کہ ساری مخلوقات اس کی نگاہوں سے چھپ جائیں ، جیسے آفتاب کے طلوع سے سارے ستارے چھپ جاتے ہیں مگر معدوم نہیں ہوتے ، جیسے مجنوں کا یہ قول تمثل لی لیلیٰ بکل سبیل٭۔ جس وحدۃ الوجود کو ہم نے فلاسفہ افلاطونی کا خیال کبھی کہا ہے یا ہندوؤں سے ماخوذ بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ذات الٰہی ہی پھیل کر عالم بن گئی ہے۔جیسے انڈا ہی پھٹ کر چوزہ بن جاتا ہے ۔ یہی خیال ہے جو ایک رباعی میں خیام کی طرف منسوب ہے۔ حق جان جہاں است وجہاں جملہ بدن ارواح وملائکہ حواس ایں تن افلاک وعناصر وموالید اعضاء توحید ہمیں است وگرہا ہمہ فن۱؎ ------------------------------ ۱؎ مکاتیب سید سلیمان ۱۸۶ ٭ حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں : ظاہر ہے کہ تمام کمالات حقیقۃ اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں اور مخلوقات کے کمالات عارضی طور پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا وحفاظت کے سبب ان میں موجود ہیں ایسے وجود کو اصطلاح میں وجودظلی کہتے ہیں اورظل کے معنی سائے کے ہیں ۔ سوسائے سے یہ نہ سمجھ جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی سایہ ہے بلکہ سائے کے وہ معنی ہیں جیسے کہتے ہیں ہم آپ کے زیر سایہ رہا کرتے ہیں یعنی آپ کی حمایت وپناہ میں ، اور ہمارا امن وعافیت آپ کی توجہ کی بدولت ہے اس طرح چونکہ ہمارا وجود بدولت عنایت خداوندی ہے اس لئے اس کو وجود ظلی کہتے ہیں ۔ پس یہ بات یقینا ثابت ہوئی کہ ممکنات کا وجود حقیقی اور اصلی نہیں ہے عارضی اور ظلی ہے ۔ اب وجود ظلی کا اگر اعتبار نہ کیا جائے تو صرف وجود حقیقی کا ثبوت ہوگا اور وجود کو واحد سمجھا جائے گا یہ ’’ وحدۃ الوجود‘‘ ہے اگر اس کا بھی اعتبار کیجئے کہ آخر کچھ تو ہے بالکل معدوم تو ہے نہیں ، گوغلبہ ونور حقیقی سے کسی مقام پر سالک کو وہ نظر نہ آئے تو یہ’’ وحدۃ الشہود ‘‘ہے۔ معدوم تو ہے نہیں ، گوغلبہ ونور حقیقی سے کسی مقام پر سالک کو وہ نظر نہ آئے تو یہ’’ وحدۃ الشہود ‘‘ہے۔ (باقی اگلے صفحہ پر)