اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
بنانا چاہئے، آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں، ہمتیں اور حوصلے بلند رکھنے چاہئیں۔ اس لئے کہ بلند ہمت انسان کی مثال پرندوں جیسی ہے، جیسے پرندے اپنے بازوؤں کی مدد سے ہوا میںاڑتے ہیں اور فضائی سیر کرتے ہیں ، ایسے ہی انسان اپنی ہمتوں کی مدد سے بلند پروازی کرتاہے اور اعلیٰ مقامات تک پہنچ جاتا ہے، انسان کے ٹھوس عزائم اور بلند حوصلوں کے سامنے کوئی چیز حائل نہیں ہوسکتی ،آ ہنی دیواریں بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ ؎ جو ہو عزم سفر پیدا تو کٹ جاتی ہیںزنجیریں صاحب تعلیم المتعلم لکھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے میں بنیادی چیز عالی ہمتی اور کوشش ہے، مثلاً کسی نے پختہ ارادہ کرلیا کہ میںمحمدبن حسنؒ کی تمام کتابوں کو (جوایک ہزار کے قریب ہیں) زبانی یاد کروںگااور اس میںوہ پوری طرح لگ بھی گیا توظاہر ہے کہ اگر ان تمام کتابوں کو مکمل طورپر یادنہ کرسکا تو کم سے کم اس کے اکثر حصے کو توضرور ہی یاد کرلے گا اور اگر اس کے اندربلند حوصلگی تو ہے ، مگر محنت نہیںکرتا یامحنت کرتا ہے مگر ہمت وحوصلہ نہیں رکھتا تووہ علم کے تھوڑے سے حصے سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ نیز انہوں نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے۔ ’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ مَعَالِیَ الْاُمُوْرِ وَیَکْرَہُ سَفْسَافَھَا ‘‘ اللہ تعالیٰ تمام کاموں میں بلند ہمتوں کو محبوب رکھتا ہے اور پست ہمتی کو ناپسند کرتاہے۔ حضرت اقدس تھانوی قدس سرہٗ نے ایک موقع پر فرمایا ’’بفضلہ تعالیٰ کام سب کچھ ہوسکتا ہے، ہمت کی ضرورت ہے، بندہ کا فرض کام شروع کردینا اور اس میں لگ جاناہے، وہ صرف اسی کا مکلف ہے، پھرچند روز میں انشاء اللہ سب کچھ ہورہے گا ، ہمت تووہ چیز ہے کہ پہاڑوں کو ہلادیتی ہے ۔ ابن شبیب کا مقولہ ہے۔ ’’طبیعت تربیت سے بنتی ہے ، اور علم تلاش سے ملتا ہے۔