اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
پاک ایندھن جلایا گیا تھا۔ ؎ عام حالت میں بسر کی زندگی تونے توکیا کچھ تو ایسا کرکہ عالم بھر میں افسانہ رہے ابن جریرطبری کے حالات میں صاحب البدایہ والنہایہ نے لکھا ہے’’ رُوِیَ عَنْہٗ اِنَّہٗ مَکَثَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَکْتُبُ وَکُلَّ یَوْمٍ یَکْتُبُ اَرْبَعِیْنَ وَرَقَۃً‘‘ کہ وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ) درس نظامی کی مشہور اور معروف کتاب ’’تفسیر جلالین شریف‘‘ کو اس کے مصنف علامہ سیوطی نے بیس بائیس سال کی عمر میں بہت قلیل مدت میں یعنی صرف چالیس روز میںلکھی ہے اور آج پورے سال میں بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے۔ علامہ نووی نے بستان میں ایک معتمد شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصانیف اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا، کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے یعنی سولہ صفحے روزانہ ہوئے، اور علامہ طبری ،ابن جوزی اور علامہ سیوطی کی تصنیفات کا روزانہ اوسط اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ظفر المحصلین) حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے حالات میں ہے کہ عنفوان شباب کی سترہ سالہ عمر ہی میں تحصیل علوم سے فراغت پاکر مسند درس پر فائز ہوگئے تھے اور ہر فن میں کامل دسترس رکھتے تھے، علم حدیث ہو کہ علم اسناد ورجال ،علم تفسیر ہوکہ علم فقہ و فتاویٰ ، فلسفہ ہوکہ ریاضی و ہئیت ان تمام علوم میںا ٓپ کی بیش بہا تصانیف کا ذخیرہ موجودہیں جن کی تعداد بقول شیخ ابوالفتاح ابو غدہ کے ایک سو بیس ہے اور آپ کی عمر صرف انتالیس سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیۂ خداوندی ہے، آپ کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر