اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
حضرت علامہ صدیق احمد صاحب کشمیری اپنی طالب علمی کے زمانے میں صرف روٹی لیتے تھے ، سالن نہ لیتے تھے ، روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے ،جب موقع ہوتا کھالیتے اور فرماتے روٹی سالن کے ساتھ کھانے میںمطالعہ کا نقصان ہوتا ہے۔ شیخ جمال الدین قاسمی ؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدرفرماتے تھے۔ سفر میں ہو، یا حضر میں ، گھر میں ہو یا مسجد میں، مسلسل مطالعہ اور تالیف کاکام جاری رکھتے تھے ، سوانح نگاروں نے لکھا ہے۔ مَضٰی رَحِمَہٗ اللّٰہ یَکْتُبُ دُوْنَ اِنْقِطَاعٍ فِی اللَّیْلِ وَفِی النَّہَارِ، وَفِی الْقِطَارِ، وَفِی النُّزْھَۃِ،فِی الْعَرَبَۃِ فِی الْمَسْجِدِ، فِی سُدَّتِہِ فِی بَیْتِہِ، وَاَظُّنُّ اَنَّ الطَّرِیْقَ وَحْدَہٗ ھُوَالَّذِیْ خَلَامِنْ قَلَمِہِ وَقَدْکَانَ فِی حَبِیْبِہِ دَفْتَرُٗ صَغِیْرُٗ وَقَلَمُٗ ، یُقَیِّدُ الْفِکْرَۃَ الشَّارِدَۃَ۔ یعنی اللہ ان پر رحم فرمائے ہر وقت لکھتے رہتے تھے، کیادن ، کیارات ، کیا سفر کیا حضر، کیا مسجد، کیا گھر ، میراخیال تو یہ ہے کہ سوائے دوران رفتار کے کسی اور وقت ان کے قلم کوقرار نہیں تھا۔ ان کے جیب میں ایک نوٹ بک اور قلم پڑا رہتا تھا، جس کے ذریعہ وہ اپنے منتشرافکار کومحفوظ کرلیتے تھے جو لوگ بازاروں میں ،چائے خانوں میںبیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے تھے، ان کو دیکھ کر حسرت فرماتے اورعجیب بات فرماتے ، تذکرہ نگار لکھتے ہیں۔ وَقَدْتَحَسَّرَمَرَّۃً وَھُوَ وَاقِفُٗ اَمَامَ مَقْھٰی قَدْاِمْتَلَابِاُنَاسٍ فَارِغِیْنَ یُضَیِّعُوْنَ الْوَقْتَ فِی اللَّھْوِ وَالتَّسْلِیَۃِ فَقَالَ لِبَعْضِ مُحَبِّیْہِ آہ!کَمْ اَتَمَنّٰی اَنْ یَّکُوْنَ الْوَقْتُ مِمَّایُبَاعُ لَاَشْتَرِی مِنْ ھٰوُلَائِ جَمِیْعًا اَوْقَاتَھُمْ۔ ایک دفعہ وہ قہوہ خانے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، جو لوگوں سے بھرا ہواتھا اوروہ لوگ لایعنی اورٹھٹھے میں مشغول تھے، نہایت حسرت کیساتھ اپنے ایک ساتھی سے فرمایا آہ! جی یوں چاہتاہے کہ وقت کوئی ایسی شئ ہوتی جو بیچی خریدی جاسکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات کو خریدلیتا ۔ (اقوال سلف)