اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
یکسوہوکر اسی دھن میں لگا ہوا، مطلب اور دھن ایسی جیسے پیاس سے سسکنے والے کوپانی سے ہوتی ہے اوربھوک سے بیتاب ہوکر تڑپنے والے کو کھانے سے ہوتی ہے ،کھانے اور پینے کے علاوہ سے ان کو کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا، اس کے علاوہ کوئی چیز اچھی ہی نہیں لگتی ، ایسی ہی طلب اور دھن اس طالب کو علم سے لگی ہو ، محض آرزوئیں نہ ہوں۔ اسی لئے محققین کا قول ہے۔ لَوْکَانَ ھٰذَا الْعِلْمُ یُدْرَکُ بِالْمُنٰی ٭ مَاکَانَ یَبْقٰی فِی الْبَرِیَّۃَ جَاھِلُ اگریہ دولت علم محض تمناؤں اورآرزوؤں سے حاصل ہوجایا کرتی تو مخلوق میںکوئی جاہل نہ رہتا ،ہرایک علم کی دولت کو سمیٹ لیتا، لیکن ایسا ہرگز نہیں ، اس کیلئے سچی طلب کے ساتھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ علم کی طلب اور تلاش میںاس طالب کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے اس شخص کی ہوتی ہے جو اپنی قیمتی اور محبوب شی کے گم ہوجانے پر اس کی تلاش میں گلی درگلی کوچہ در کوچہ گھومتا ہے۔ ساری چیزوں سے بالکلیہ بیزار ہوکر اسی کی دھن میں حیران وسرگرداں ہوتا ہے، جب تک اسے پانہ لے چین نہیں لیتا، ایسی ہی کیفیت اس طالب کی ہے ، تحصیل علم میں لگا ہوا ہے، ہروقت ہاتھ میں کتاب ہے ، چرچا ہے تو علم کاکتاب کا ،سوچ ہے تو علم کی ، مجلسیں ہیں تو علم کی ، دوستی ہے توعلم سے ، اس کے علاوہ میں اس کا جی ہی نہیں لگتا ۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا: اَلْحِکْمَۃُضَالَّۃُ الْحَکِیْمِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ احَقُّ بِھَا (رواۃ الترمذی وابن ماجہ) حکمت ودانائی حکیم کی گمشدہ چیز ہے، لہٰذا جہاں بھی وہ پائے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔