اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
بلکہ بعض جگہوں پر تو اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ ’’اصطفاء‘‘ بمعنی انتخاب براہ راست امت محمدیہ او راس کے علماء کیلئے استعمال کیا ہے ، جوقرآن میںاکثرانبیاء کیلئے استعمال ہواہے، چنانچہ فرمایا’’ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا‘‘ پھرہم نے وارث بنایاکتاب کا ان لوگوں کو جن کو ہم نے چن لیا ہے اپنے بندوں میںسے ۔ جمہورمفسرین کے نزدیک اس سے مراد امت محمدیہ ہے، اس کے علماء بلاواسطہ اوردوسرے لوگ بواسطۂ علماء معلوم ہواکہ کتاب اللہ اور علوم نبوت کیلئے مثل نبوت ورسالت کے انتخاب ہوتا ہے اگرچہ اصطفاء ’’انتخاب‘‘ کے درجات مختلف ہیں۔ (ملخص ازمعارف القرآن) ارشاد باری عزاسمہ ہے۔ یُوْتِی الْحِکْمَۃ َمَنْ یَّشَائُ وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْاُوْتِیَ خَیْرًاکَثِیْراً اللہ تعالیٰ جسکو چاہتے ہیں حکمت (علم) عطا کرتے ہیں ، اور جسے حکمت کی دولت مل گئی اسے خیرکثیر مل گئی۔ حکمت کی ایک تفسیر علم مع العمل سے کی گئی ہے ، اس کے علاوہ حکمت کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، تقریباً تیس قول ہیں، تفسیر بحرمحیط میںان تمام اقوال کو جمع کیا ہے، پھر آخرمیں فرمایا کہ درحقیقت یہ سب اقوال متقارب ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں ، صرف تعبیرات کا فرق ہے۔ حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ یُّرِدِاللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّھْہٗ فِی الدِّیْنِ وَاِنِّمَا اَنَاقَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ۔ متفق علیہ (مشکوٰۃ ۱/۳۲) اللہ تعالیٰ کو جس کے ساتھ بھلائی منظورہوتی ہے اسکو دین کی سمجھ عطا کرتے ہیں اورحقیقت تو بس یہ ہے کہ میں توصرف بانٹتا