اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
وسعت دی، اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کیا اور یہ سب تاریخ کے اس دور میں انجام دیا، جس دور میں یورپ تاریکیوں میں بھٹک رہا تھا، یہ ان کا Drak Ageتھا ،لیکن اسپین میں وہ مسلمانوں کے علوم و معارف سے آشنا ہوئے تو ان کی آنکھیں کھلیں، وہاں انہوں نے مسلمانوں کا عظیم الشان علمی سرمایہ دیکھا اور مسلمان علماء کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور اندلس کے تعلیمی مراکز سے وابستہ ہوئے اور پوری محنت و جستجو کے ساتھ استفادہ کیا اور ان کی بہت سی تحقیقات جو مختلف النوع موضوعات اخلاقیات ، تہذیب و ثقافت سماجی علوم ، تاریخ و جغرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں، اپنی کتابوں میں منتقل کیں، فن جہاز رانی میں ابن ماجد کا شہرہ تھا، البیرونی مختلف ثقافتی و سماجی موضوعات پر قافلہ سالار کی حیثیت رکھتا تھا، ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں انسانی ، ادبی، اور ثقافتی علوم پر انمٹ نقوش ثبت کئے، یہ سب اس بات کی واضح اور روشن دلیل تھے کہ انسانی علوم میں دوسروں پر مسلمانوں کو ہر حیثیت سے فوقیت حاصل تھی اور دنیا کے علمی سفر میں مسلمانوں کے کارناموں سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، (حوالۂ سابق) موجودہ ترقی یافتہ قوموں یعنی مغربی دنیا کی قوموں نے عصری اور طبیعاتی علوم میں جو ترقی کی اس کا آغاز انہوں نے امت مسلمہ کی تعلیم گاہوں ، مصنفوں اور حاملین علم سے فیض اٹھا کر کیا، اس فیض کے اثرات آج کی علمی ترقیات کی بنیادوں میں صاف طریقے سے محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اندلس اور سسلی مسلمانوں کے دو ایسے علمی اور تہذیبی مرکز تھے، جو خود یورپ میں قائم تھے، یہاں کی درسگاہیں اور یونیورسٹیاں ایک زمانہ تک عیسائی طلباء کی طواف گاہ بنی رہیں، جب ان دونوں مراکز سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا تو پسماندہ علمی میراث یورپ کے مختلف کتب خانوں میں منتقل ہوگئی اسی طرح صلیبی فوجوں نے مسلمانوں کے علمی سرمایہ کو لوٹا اور برباد کیا،ان