اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حضرات اپنے مکانوں پر بھی تعلیم دیتے تھے، ایک ایک حلقہ میں کئی ہزاروں کی تعداد میں فقہا علماء شریک ہوتے تھے اور ایک ایک مسجد میں کئی کئی حلقے لگتے تھے، علمی تشنگی اور طلب کا یہ حال تھا کہ جہاں جہاں محدثین ہوتے لوگ حدیث سیکھنے کے لئے ان کے پاس جاتے، اکثر پیدل سفر کرتے اور جب کوئی محدث کسی مقام پر آنکلتا تو خبر پاتے ہی لوگ دکانیں بند کرکے اور کام کاج کو چھوڑ چھوڑ کے اس کے پاس جمع ہوجاتے اور ایک ایک محدث کے حلقہ ٔدرس میں سینکڑوں اور ہزاروں بلکہ آخر میں تو ایک لاکھ سے بھی زائد طالبان علوم نبوت شریک رہتے تھے، (دعوت علم و عمل) یزید بن ہارون نے جب بغداد میں درس حدیث دیا تو اس میں ستر ہزار حاضرین کا تخمینہ کیا گیا ،امام عاصم بن علی املائے حدیث کے واسطے بغداد سے باہر نخلستان میں بیٹھے تھے، خلیفہ معتصم باللہ نے ایک بار اپنا ایک معتمد اس مجلس کے شرکاء کا اندازہ کرنے کے لئے بھیجا تو ایک لاکھ چوبیس ہزار حاضرین کی تعداد کا اندازہ تھا۔ احمد بن جعفر راوی ہیں کہ جب ابومسلم بغداد میں آئے تو رحبہ غسان نامی مقام پر انہوں نے حدیث کا املاء کیا، سات مستملی کھڑے ہوئے جن میں سے ایک دوسرے کو شیخ کی روایت پہنچاتا تھا اور لوگ کھڑے کھڑے تحریر حدیث میں مصروف تھے، دواتوں کا شمار کیا گیا تو کچھ اوپر چالیس ہزار دوایتیں شمار ہوئیں جو لوگ لکھتے نہ تھے صرف سماعاً شریک تھے وہ اس تعداد سے خارج ہیں۔ شیخ وقت فریابی نے بغداد میں املائے حدیث کیا تو تین سو سولہ مستملی ان کی مجلس میں حاضر تھے اور حاضرین تخمینا تیس ہزار، فریابی کی مجلس میں دس ہزار آدمی ان کے پاس ایسے پڑھنے آتے تھے جو دوات قلم لے کر بیٹھتے، فریبری کی روایت ہے کہ امام بخاری کی جامع صحیح کو ان سے نوے ہزار