اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی بیشمار نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے، مگر سب سے پہلے علم قرآن کو بیان کیا،اس کے بعد انسانی تخلیق پربحث کی ہے، جبکہ عقلی تقاضا یہ ہے کہ پہلے تخلیق کا ذکرہو پھر علم کا، مگر علم کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے یہ انداز اختیارکیا گیا اورصرف تخلیق ِ انسانی سے پہلے ہی نہیں بلکہ کائنات کی تمام نعمتوں سے پہلے علم کوبیان کرکے یہ بتادیا کہ علم ہی ایک ایسی نعمت اورعطیۂ خداوندی ہے جواللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام نعمتوں سے بڑھی ہوئی ہے، اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ایک جگہ فرمایا ۔ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہ عَلَیْکَ عَظِیْماً (پ۵ آیت۱۳) اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ باتیں سکھلائیںجن کو آپ جانتے نہیں تھے اور اللہ کا فضل آپ پربہت بڑاہے۔ دوسری جگہ فرمایا : یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَائُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَـقَـدْاُوْتِیَ خَیْراً کَثِیْراً اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں علم وحکمت کی دولت عطا کرتے ہیں اور جسے یہ دولت مل گئی اسے خیرکثیر مل گئی۔ علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ فرمایا: قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ۔‘‘ پیارے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے کہ جاننے والے اورنہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں؟ نیز فرمایا : یَرْفَعُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوامِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوالْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ) اللہ تعالیٰ تم میںسے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کرے گا۔