اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
قسم کی کوئی بات نہ تھی، پھر اسلام کا اولین اعلان کیا تھا؟ محض علم کی برتری اور ضرورت کا اعلان تھا۔ اس لئے کہ اسلام کے پہلے اعلان کا پہلا لفظ جو دنیا نے سنا وہ ’’اقراء ‘‘تھا۔ (جامع بیان العلم) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت جن آیتوں میں بیان کئے گئے ہیں ان میں بھی اسی علم وتعلیم کاذکر ہے ، چنانچہ فرمایا یَتْلُوْعَلَیْھِمْ آیٰاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ اس میں تین مقاصدبیان کئے گئے ہیں۔ ایک تلاوت آیات قرآن یعنی قرآن پڑھ کر امت کو سنانا ،دوسرے ان کو ظاہری وباطنی ہرطرح کی گندگی اورنجاست سے پاک کرنا، تیسرے کتاب وحکمت کی تعلیم دینا۔ سفیان ابن عینیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں نبوت سے افضل کوئی چیز کسی کو عطا نہیں کی گئی اور نبوت کے بعد علم وفقہ سے افضل کوئی چیز کسی کو عطا نہیںہوئی (تذکرۃ السامع والمتکلم) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک مرتبہ بازار میںگئے ، وہاں لوگوں کو اپنی تجارتوں میںاور خریدوفروخت میں مشغول پایا، تو فرمایا تم لوگ یہاں ایسی چیزوںمیں مشغول ہو حالانکہ مسجد میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہورہی ہے ، یہ سن کر لوگ جلدی سے مسجدمیں پہنچے ،کیا دیکھتے ہیں کہ قرآن وذکر کے حلقے لگے ہوئے ہیں اور علمی مجلسیں قائم ہیں ،توانہوںنے کہا ابوہریرہ ! میراث کہاں ہے؟ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا یہی حضور ؐ کی میراث ہے، جو آپکے ورثہ میںتقسیم ہورہی ہے اور حضورؐ کی میراث تمہاری دنیوی میراث نہیں ہے، (ترغیب ترہیب) کسی نے خوب کہا ہے ؎ اَلْعِلْمُ فِیْہِ حَیَاۃُٗلِلْقُلُوْبِ ٭ کَمَاتَحْیَا الْبِلَادُ اِذَامَامَسَّھَا الْمَطَرُ وَالْعِلْمُ یَجْلُو الْعَمٰی عَنْ قَلْبِ صَاحِبِہِ ٭ کَمَا یُجْلِیْ سَوَادَ الْظُّلْمَۃِالْقَمَرُ