اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اس کا اثر اعضاء وجوارح پر ظاہر ہوتا ہے اوررسمی اورغیر نافع علم وہ ہے جو محض زبان تک محدود رہتاہے، اس کا اللہ کے نزدیک کوئی مرتبہ نہیںہے۔ حقیقی علم کا نور جب دل میںپیدا ہوتاہے تو اس کی روشنی میں چیزوں کی حقیقت اس طرح آشکارا ہوتی ہے جیسے سورج کی روشنی کے سامنے سیاہ وسفید ، علم کا یہ نور جب دل میں داخل ہوتا ہے تودل کی عجیب کیفیت ہوجاتی ہے ، اس نور کے دل میںداخل ہونے کی علامت کو صاحب موافقات اس طرح بیان کرتے ہیں۔ وَلٰکِنْ عَلَیْہِ عَلَامَۃٌ ظَاہِرَۃٌ وَھُوَالتَّجَافِی۔ عَنْ دَارِالْغُرُوْرِ وَالْاِنَابَۃُ اَلٰی دَارِالْخُلُوْدِ۔ علم نافع حاصل ہونے کی ایک کھلی علامت یہ ہے کہ آدمی کو دنیا سے نفرت اور آخرت کی طرف توجہ ہونے لگتی ہے ، جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو سمجھ لو کہ اب علم نافع کا حصول ہورہا ہے۔ علم نافع کی دوسری علامت یہ ہے کہ جس کو حقیقی علم حاصل ہوتاہے اس کے علم وعمل اور قال وحال میں مطابقت ہوتی ہے ، اسلئے کہ حقیقی عالم بے عمل ہوہی نہیں سکتا اور نہ علم صحیح بلا عمل قائم رہ سکتاہے ، علم صحیح اپنے حامل کو مقتضائے علم پر عمل کے لئے مجبور کردیتا ہے ۔ (ترجمان السنۃ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’فَمَنْ یُّرِدُاللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٌ لِلْاِسْلَامِ ‘‘ کی تلاوت فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں، تو پوچھا گیا سینہ کوکھولنا کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا اِنَّ النُّورَاِذَاقُذِفَ فِیْ الْقَلْبِ انْشَرَحَ لَہٗ الصَّدْرُ وَانْفَسَحْ‘‘ علم کا نور جب دل میںڈالا جاتا ہے تو سینہ اسکے لئے کھل جاتا ہے ، سوال کیا گیا اس کی کوئی علامت ہے؟ آپؐ نے فرمایا