اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
’’یاد رکھو! کوئی عالم علم میں ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ جو کچھ سیکھ چکا ہے دوسروں تک نہ پہنچائے ، جو اس سے کم علم رکھتے ہیں ، اور خصوصاً ان تک جو کفر کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں، میرا یہ کہنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ماخوذ ہے ’’ مَنْ لَّایَرْحَمْ لَایُرْحَمْ‘‘ بردیگراں پاش کوحق برتو پاشد‘‘ کفر کی حد تک پہنچے ہوئوں تک علم پہنچانا اصل علم کی تکمیل اور ہمارا فریضہ ہے اور جاہل مسلمانوں تک علم پہنچانا مرض کا علاج ہے۔ مولانا نے اس نکتہ کو خوب سمجھ لیا تھا کہ جس طرح ہر زمانے کا ایک خاص فتنہ اور مرض تھا، اس زمانے کا خاص فتنہ اور مرض اپنی دینی حالت پر قناعت اور سکون اور دنیا میں شدت انہماک اور مشغولیت ہے، جس نے دین کے حصول کے لئے زندگی میں فرصت کا کوئی لمحہ نہیں چھوڑا، یہ مشاغل اور تعلقات، اس زمانے کے ’’ارباب من دون اللہ‘‘ اور بتان نو ‘‘ ہیں جو اپنی موجودگی میں کسی اور طرف توجہ کرنے اور اس کے اثرات قبول کرنے کے روادار نہیں۔ مولانا نے بڑی قوت کے ساتھ اس بات کی دعوت دی کہ دین سیکھنے کے لئے اور دین کے اثرات کو جذب کرنے کے لئے اپنے ماحول سے (عارضی طور پر) نکلنے اور ان بتوں کی گرفت سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے، یہ مشاغل و تعلقات قلب سے اتنے چسپاں ہوچکے ہیں کہ کلمہ دین کی حقیقتیں اور اعمال کے اثرات قلب میں داخل ہونے کے لئے کوئی چھوٹے سے چھوٹا دریچہ بھی نہیں پاتے اور اس کی بالائی سطح سے ہی ٹکرا کر رہ جاتے ہیں۔ مولانا کے نزدیک مسلمانوں کے ہر طبقہ کو دین سیکھنے اور اپنی زندگی میں حقیقی دینداری پیدا کرنے کے لئے نیز دینداروں اور علم دین رکھنے والوں کو اپنی سطح سے ترقی کرنے کے لئے اپنے مشاغل سے کچھ وقت نکالنے اور اپنے کو اس وقت کے لئے فارغ کرلینے کی ضرورت ہے۔ (دینی دعوت)