اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
حسن صاحبؒ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں جب مولوی الیاس کو دیکھتا ہوں تو مجھے صحابہ یاد آجاتے ہیں، (مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت) حضرت مولانا نے آخری مرض میں ایک روز مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری سے فرمایا کہ شاہ صاحب! میں نے شروع میں مدرسہ پڑھایا یعنی مدرسہ میں درس دیا تو طلبہ کا ہجوم ہوا اور اچھے اچھے صاحب استعداد طلبہ کثرت سے آنے لگے، میں نے سوچاکہ ان کے ساتھ میری محنت کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ جو لوگ عالم مولوی بننے ہی کے لئے مدرسہ میں آتے ہیں، مجھ سے پڑھنے کے بعد بھی وہ عالم مولوی ہی بن جائیں گے، پھر ان کے مشاغل وہی ہونگے جو آج کل عام طور سے اختیارکئے جاتے ہیں، کوئی طب پڑھ کر مطب کریگا، کوئی یونیورسٹی کا امتحان دیکر اسکول کالج میں نوکری کریگا، کوئی مدرسہ میں بیٹھ کر پڑھاتا ہی رہے گا، اس سے زیادہ اور کچھ نہ ہوگا یہ سوچ کر مدرسہ میں پڑھانے سے میرا دل اٹھ گیا۔ اس کے بعد ایک وقت آیا جب میرے حضرت نے مجھ کو اجازت دیدی تھی تو میں نے طالبین کو ذکر کی تلقین شروع کی اور ادھر میری توجہ زیادہ ہوئی، اللہ کا کرنا آنے والوں پر اتنی جلدی کیفیات اور احوال کا ورود شروع ہوا اور اتنی تیزی کے ساتھ حالات میں ترقی ہوئی کہ خود مجھے حیرت ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ یہ کیا ہورہا ہے، اور اس کام میں لگے رہنے کا نتیجہ کیا نکلے گا، زیادہ سے زیادہ وہ یہی کہ کچھ صاحب احوال اور ذاکر وشاغل لوگ پیدا ہوجائیں، پھر لوگوںمیں ان کی شہرت ہوجائے، تو کوئی مقدمہ جیتنے کی دعا کے لئے آئے، کوئی اولاد کے لئے، تعویذ کی درخواست کرے، کوئی تجارت اور کاروبار میں ترقی کی دعا کرائے اور زیادہ سے زیادہ ان کے ذریعہ بھی آگے کو چند طالبین میں ذکر وتلقین کا سلسلہ چلے، یہ سوچ کر ادھر سے بھی میری توجہ ہٹ گئی اور میں نے یہ طے کیا کہ اللہ نے ظاہر و باطن کی جو قوتیں بخشی ہیں، ان کا صحیح مصرف یہ ہے کہ ان کو اسی کام میں لگایا جائے جس میں