اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
ناواقف باطن سے خالی سمجھتے ہیں، حالانکہ ان کے احوال و سوانح ان کی برکات باطنی سے لبریز ہیں، ابن قیم کی ’’منازل السالکین‘‘ وغیرہ کتابیں پڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ وہ آرائش ظاہر اور جمال باطن دونوں سے آراستہ تھے۔ ہندوستان میں جن بزرگوں کے دم قدم سے اسلام کی روشنی پھیلی، وہ حقیقت میں وہی تھے جن کی ذات میں مدرسہ اور خانقاہ کے کمالات کی جامعیت تھی کہ وہ اسوۂ نبوت سے قریب تر تھے ،اس لئے ان کا فیض بعید سے بعید تر حصہ تک پھیلتا چلا گیا، آسمان دلی کے مہروماہ اور تارے شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر شاہ اسماعیل تک کو آپ ایک ایک کر کے دیکھیں تو ظاہر و باطن کے علوم والوں کا نظارہ آپ کو ہوگااور اس سے ان کی علمی وروحانی برکات کی وسعت کی حقیقت آشکارا ہوجائے گی، وہ علوم کی تدریس کے وقت ’’ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ کا جلوہ دکھاتے تھے اور حجروں میں بیٹھ کر ’’یُزَکِّیْہِمْ‘‘ کی جلوہ ریزی فرماتے تھے، پھر ان کے فیوض و برکات کے جو حامل ہوئے، جن کی نشان دہی چنداں ضروری نہیں کہ ’’سِیْمَا ہُمْ فِی وُجُوْہِہِمْ مِنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ‘‘ ان سے دنیا کو جو فیض پہنچا اور دین کی اشاعت و تبلیغ اور قلوب و نفوس کے تزکیہ و تصفیہ کا جو کام انجام پایا، وہ بھی ظاہر و باطن کی اسی جامعیت کے آئینہ دار تھے اور آئندہ بھی سنن الہیہ کے مطابق دین کا فیض جن سے پھیلے گا وہ وہی ہوں گے جس کے اندر مدرسیت اور خانقاہیت کی دوسوتیں ایک چشمہ بن کر بہے گی، ’’مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقْیَانِ‘‘ آنکھوں کا نور شب بیداری سے بڑھتا اور زبان کی تاثیر ذکر کی کثرت سے پھیلتی ہے، رات کے راہب ہی اسلام میں دن کے سپاہی ثابت ہوتے ہیں، سوانح و تراجم کا سیزدہ صد سالہ دفتراس دعویٰ کا شاہد ہے، زباں کی روانی اور قلم کی جولانی دل کی تابانی کے بغیر سراب کی نمو سے زیادہ نہیں، خواہ اس وقت کتنا ہی تابناک نظر آتا ہو مگر وہ مستقل اور مستقبل وجود سے محروم ہے۔ (حوالۂ بالا)