اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
محدثین و فقہاء میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں مثلاً خلفاء اسلام ، امرائے بلاد، تابعین، ائمہ حدیث، مجتہدین، فقہاء، قضاۃ زہاد صوفیاء، ادباء، شعراء، مورخین، مفسرین اور فلاسفہ سب آپ کے حلقۂ مستفدین میں داخل ہیں۔ ایک مسجد میں حضرت جنید بغدادیؒ بیٹھے ہوئے تھے، پوری مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی، ایک شخص نے اعلان کیا جو سب سے برا ہو وہ باہر آجائے ،سب سے پہلے حضرت جنیدؒ دوڑ کر مسجد سے باہر آئے اور اعلان فرمایا کہ میں سب سے برا ہوں، حضرت شبلی کو جب اس واقعہ کی خبر ملی، تو فرمایا کہ اسی چیز نے تو جنید کو جنید بنایا ہے۔ ایک مرتبہ مصر میں سخت قحط سالی ہوئی، لوگوں نے حضرت ذوالنون مصری سے درخواست کی کہ دعا فرمائے اللہ تعالیٰ بارش برسائے، حضرت مصر سے باہر جنگل میں تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ سے گریہ وزاری کے ساتھ دعا مانگی کہ اے اللہ! مصر میں سب سے زیادہ نالائق، سب سے زیادہ گنہگار ذوالنون نے مصر خالی کردیا ہے، اب آپ اپنی رحمت کی بارش عطا کیجئے، حضرت کی اس فنائیت اور تواضع پر دریائے رحمت جوش میں آیا اور خوب بارش ہوئی۔ ؎ ازیں برملائک شرف داشتند کہ خود رابہ از سگ نہ پنداشتند ترجمہ: اللہ والے اسی وجہ سے شرف میں ملائکہ سے بڑھ جاتے ہیں کہ خود کو کتے سے بھی بہتر نہیں سمجھتے۔ (کشکول معرفت) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے تھے کہ ایماں چو سلامت بہ لب گوربریم احسنت بریں چشتی و چالاکی ما ترجمہ: جب ایماں کو قبر میں سلامتی سے لے جائوں گا اس وقت میں دین میں اپنی چستی و چالاکی کو بہ نظر استحسان دیکھوں گا۔ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ بندہ جب تک زندہ ہے تو اس کو شان بنانی ہی نہیں چاہئے ،کیا خبر کیا حالت ہونے والی ہے، ہاں! جب دنیا سے صحیح سالم