اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
چنانچہ ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی سے رات کو صحابہ کرام کے محلوں میں گشت کے لئے نکلے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان کے پاس گزر ہوا تو تلاوت کی آواز آرہی تھی ، لیکن اتنی دھیمی آواز تھی کہ آپ نے دیوار سے کان لگا کر بہ غور سنا تب صاف آواز آئی ۔ آگے بڑھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مکان سے گزر ہوا ، حضرت عمر فاروق ؓ بھی قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے ، لیکن آپ اتنی بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے کہ پورا محلہ گونج رہا تھا۔ صبح نماز کے بعد صحابۂ کرام کے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبرؓ سے دریافت فرمایا کہ رات میں تمہارے مکان سے گزرا تو تم قرآن کی تلاوت کررہے تھے لیکن آواز بڑی مدھم تھی ۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میں تو خدا کو سنا رہا تھا جو ہر ڈھکی چھپی ، آہستہ اور تیز آواز کو سنتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دریافت فرمایا : عمر ! میں تمہارے مکان کے پاس سے بھی گزرا لیکن تم بڑی بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے ؟ حضرت عمر بن خطابؓ نے جواب دیا : میں شیطان کو بھگا رہا تھا اور سونے والوں کو جگا رہا تھا۔ اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر ؓ ! تم اپنی آواز اور بلند کرو اور حضرت عمرؓ کو ارشاد ہوا کہ عمرؓ ! تم اپنی آواز اور پست کرو۔ ظاہر ہے کہ پست آواز سے پڑھنا بھی مباح تھا اور بلند آواز سے پڑھنا بھی مباح ۔ لیکن یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت تھی جو آپ ؐ تعلیم کے بعد خاص طور پر فرمایا کرتے تھے ۔ تعلیم کے بعد تربیت کی اسی اہمیت کے پیش ِ نظر صحابہ کرام بھی اپنے اپنے دور خلافت اور اپنے اپنے زمانے میں راتوں کو گشت لگاتے اور امت کی تربیت