اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
اس سے مراد وہی علم ہے جو مقرون بالعمل ہو، علم در حقیقت اسی کا نام ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے علماء یہود کے بارے میں فرمایا ’’لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْنَ‘‘ چونکہ وہ علم کے مطابق عمل نہ کرتے تھے، اس لئے باوجود اس کے کہ ما قبل مین ان کی نسبت ’’ وَلَقَدْ عَلِمُوْا‘‘ کا حکم ہے پھر بھی ’’ وَلَوْکَانُوْ یَعْلَمُوْنَ‘‘ میں ان کے علم کی نفی کی اور ان کے علم کو کالعدم سمجھا گیا، پس معلوم ہوا کہ علم مطلوب وہی ہے جس کے ساتھ عمل ہو۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے اہل علم کو اہل ذکر سے تعبیر فرمایا ہے ’’ فَاسْئَلُوْ اَہْلَ الذِّکْرِاِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ‘‘ حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھولپوری فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو اہل ذکر سے تعبیر فرما کر اہل علم کو ذکر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ علماء کی خاص شان اللہ تعالیٰ کی یاد ہے غفلت ایک سانس کو بھی نہ ہو۔ تم سا کوئی ہم دم کوئی دمساز نہیں ہے باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربط خفی سے معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں اہل ذکر سے مراد علماء لکھا ہے ، وَالْمُرَادُبِاَہْلِ الذِّکْرِ الْعُلَمَائُ‘‘ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے ذکر کی حدیث پر بخاری شریف کو ختم فرمایا تاکہ علماء صرف پڑھنے پڑھانے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ ذکر کے اہتمام سے اپنے مالک کا قرب حاصل کریں۔ کامیابی تو کام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی ذکر کے التزام سے ہوگی فکر کے اہتمام سے ہوگی (کشکول معرفت) حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اے گروہ علماء !اپنے علم پر عمل بھی کیا کرو، کیونکہ عالم وہ ہے جو پہلے علم حاصل کرے، پھر معاً اس پر عمل بھی کرے، اس کا علم و عمل