اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
خزانہ اس قدرمالامال کیونکر ہوا؟تو آپ نے فرمایا جان عزیز! تیس برس سے کمرنے بورئے کے سوا اور کسی بستر کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ حافظ ابن طاہر مقدسی نے جتنے سفر طلب حدیث میںکئے، ان میں کبھی انہوںنے سواری کاسہارا نہیںلیا، سواری اورباربرداری دونوں کاکام وہ اپنے نفس ہی سے لیتے تھے، سفر پیادہ پاکرتے اور کتابوں کا پشتاڑ پشت پر ہوتا، مشقت پیادہ روی کبھی کبھی یہ رنگ لاتی تھی کہ پیشاب میں خون آنے لگتا تھا۔ ؎ ضعف ہو لاکھ مگر دشت نوردی نہ چھٹے حشرتک چاہیئے مجنون کی طرح نام چلے (ظفرالمحصلین) حضرت امام بخاری نے چودہ برس کے سن میںسیاحت شروع کردی تھی ، ان کی والدہ اور خواہر سفر میں نگراں تھیں، بخاریٰ سے لے کر مصرتک سارے ممالک اس امام عالی مقام کے سفر میں ہیں۔ امام مالک کے حالات میں ہے کہ زمانۂ طالب علمی میںآپ کے پاس ظاہری سرمایہ کچھ نہ تھا، مکان کی چھت توڑکر اس کی کڑیوں کو فروخت کرکے مصارف ضروریہ میں خرچ کرتے تھے ، (امدادالباری) حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ فرماتے ہیں کہ زمانۂ طالب علمی میں میں نے کبھی تازہ باسی روٹی یادانہ دنکا ، مٹھائی ، کھٹائی اپنی زبان سے نہیں مانگی، اگر کسی نے دے دیا لے لیا اور کھالیا ، ورنہ خیر ، بعض دفعہ بھوک بہت لگتی مگر مانگنے کی تکلیف کو بھوک کی تکلیف پر گوارہ کرکے صبر کرتا اور جب مہینے دومہینے میں دوچار روز کے واسطے گھر نانوتہ جاتے اور پھر دیوبند کی واپسی کا وقت قریب آتا تو آپ بھوک کی تکلیف کو یادکرکے روپڑتے۔ (آپ بیتی) حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کو تحصیل علم کے زمانے میں دہلی کے اندر جب بھوک ستاتی تو بازار کی طرف نکل جاتے اور سبزی فروشوں سے سبزی کے