اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کیاکوئی شخص تعلیم دین کے معروف یعنی احسان ہونے سے انکار کرسکتا ہے؟ جب اس کا احسان ہونا مسلم ہوگیا تو اس کی مکافات میں اس کی ہرقسم کی خدمت مال سے جان سے داخل ہوگئی، جو حدیث ہٰذا میں ماموربہ ہے۔ (اصلاح انقلاب) علامہ شعرانی نے عہود محمدیہ میں لکھا ہے کہ ہم لوگوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عام عہد اس بات کا لیاگیا ہے کہ علماء کرام کا اکرام کریں اور اعزاز کریں اور تعظیم کریں اور یہ کہ ہم میںیہ قدرت نہیں ہے کہ ان کے احسانات کا بدلہ ادا کریں ،چاہے ہم سب کچھ دیدیں اور خواہ مدت العمران کی خدمت کرتے رہیں۔ اس معاہدہ میں بہت سے طلبہ ومریدین کوتاہی کررہے ہیں ، حتی کہ بہت ہی خال خال افراد ہوں گے جو اپنے اساتذہ کے حقوق واجبہ ادا کرتے ہوں ، یہ دین کے بارے میں ایک بڑی بیماری اور بھاری روگ ہے، جس سے علم کی اہانت کا پتہ چلتا ہے اور اس ذات (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کے ساتھ لاپرواہی کا پتہ چلتا ہے ، جس نے ہم کو اس کا حکم فرمایا ہے ۔ دیکھئے علامہ شعرانی نے استاذ کا حق کس قدر بھاری اور زبردست بتایا ہے کہ اپناسب کچھ دے کر یا عمر بھر خدمت کرتے رہنے پر بھی بدلہ نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ ایک محقق کا ارشاد ہے۔ ؎ رَئَیْتُ اَحَقَّ الْحَقِّ حَقَّ الْمُعَلِّمِ وَاَوْجَبَہٗ حِفْظًا عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ لَقَدْ حُقَّ اَنْ یُھْدٰی اِلَیْہِ کَرَامَۃً لِتَعْلِیْمِ حَرْفٍ وَاحِدِ اَلْفُ دِرْھَمٍ ترجمہ ۔ سب سے بڑا حق تو معلم کا ہے ، جس کی رعایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے، واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھایا اس کا مستحق ہے کہ ہزاردھم اس کیلئے ہدیہ کئے جائیں (بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میںہزاردرھم کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے) (رسالہ اسٹرائک)