اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
انکی شان میں گستاخ تھے، ایک شخص نے کہا کہ تم شاگرد ہو، وہ توتمہارے محسن ہیں، تمہیں ایسا نہ کرنا چاہیئے، اس نے جواب دیا کہ محسن تو جب ہیں کہ جب مجھے ان کا پڑھایا ہوا کچھ یاد رہا ہو ، مجھے تو کچھ یاد نہیں،پھر حضرت والا نے فرمایا ادھراس نے گستاخی کی ادھر سلب ہونا شروع ہوگیا۔ (افادات حکیم الامت) حضرت مولانا گنگوہی نوراللہ مرقدہٗ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ علماء دین کی توہین اوران پر طعن وتشنیع کرتے ہیں ، قبرکے اندر ان کا منہ قبلہ سے پھر جاتا ہے ، بلکہ فرمایا جس کا جی چاہے دیکھ لے۔ (تذکرہ الرشید) حضرت مولانا محمدیحییٰ صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ دورہ میںمیری ایک حدیث بھی کبھی نہیںچھوٹی ، دورہ کی تکمیل اعلیٰ حضرت گنگوہی ؒ سے کی ہے ، کاندھلہ قریب تھا ، مگر خود جانے کا نام توکیا لیتا، والدہ ماجدہ کے اصرار پر حضرت خودمجھے امرفرماتے ، تو سبق کے حرج کاعذرکردیا کرتا تھا۔ عید کے موقع پر حضرت نے یہ وعدہ فرمایا کہ سبق میں تمہارا انتظار کیا جائیگا ، اور مجھے حکم دیا کہ تمہاری والدہ کاباربار تقاضا ہے ، جاؤ گھر ہو آؤ، تو میں کاندھلہ گیا اور فوراً واپس آگیا ، جو صاحب قرأت کیا کرتے تھے ، ترمذی کا ایک باب چھوڑکر دوسرے باب سے پڑھنے لگے ،ہر چند میں نے اور دیگر شرکاء درس نے اصرار کیا کہ ایک باب چھوٹ گیا مگر وہ یہی کہتے رہے کہ نہیںوہ ہوچکا ۔ چند روز بعد جب دوسری مرتبہ حضرت نے فرمایا کہ کاندھلہ ہو آؤ تومیری زبان سے نکلا کہ حضرت پہلی مرتبہ کا قلق ہے کہ ایک باب چھوٹ گیا ، حضرت نے کہا اچھا کل اس کو پڑھائیں گے، چنانچہ دوسرے دن وہ باب پڑھایا اور اتنی طویل تقریر فرمائی کہ حد نہیں ، اتفاق سے اس دن بھی قاری وہی پہلے والے تھے ،سبق کم ہونے پر انکو غصہ آیا ، توباب کے ختم پر ان کے منہ سے یہ نکل گیا کہ کوئی اور باب چھوٹ گیا ہوتو وہ بھی پڑھوالو ‘‘