اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
کی مجلس اور خدمت میں حاضری دیتا۔ تذکرۃ الرشید میںیہ واقعہ لکھا ہے کہ حضرت مولانا مملوک علی صاحب دہلی میں پڑھتے تھے توبسا اوقات کتابوں کے مطالعہ کے لئے آپ کے پاس چراغ بھی نہ ہوتا تھا ،سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر جوسرکاری لالٹین جلاکرتی تھی اس کی روشنی میںکتاب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ایک روز شہزادے کی سواری ادھر سے گذررہی تھی، شاہی چوبدار آگے آگے ’’ہٹوبچو‘‘ کہتے ہوئے چلے آرہے تھے، مگر آپ کتاب کے مطالعہ میں ایسے مصروف تھے کہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ، چوبدار نے قریب جاکر ڈانٹ کرکہا، کیا تم کو نظرنہیں آتا کہ شاہزادے کی سواری آرہی ہے اور تم راستہ سے نہیں ہٹ رہے ہو، تو آپ نے جواب دیا، ہوں گے تمہارے شاہزادے! ابھی اگر کافیہ کا ایک مسئلہ پوچھ دوںتو بغلیں جھانکنے لگیں گے ۔ حضرت مفتی شفیع صاحبؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ صبح کو دارالعلوم جاتے تو اکثر رات ہی کو واپسی ہوتی، بعض اوقات رات کو بھی مولسری کے درخت کے نیچے کھلے فرش پر سوجاتے ، تکرار عموماً رات کو ہوتاتھا توجب گھرواپسی ہوتی تو کبھی رات کاایک بج جاتا کبھی دو، حضرت نے دارالعلوم کراچی کے طلبہ کو ایک مرتبہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ’’رات کو والدہ میرا انتظار کرتی تھیں کہ کھاناگرم کرکے مجھے دیں مگر ان کے انتظار میں مجھے تکلیف ہوتی تھی ، بڑی منت وسماجت سے اس پر راضی کیا کہ میرا کھانا ایک جگہ رکھ دیا کریں، سردیوں کی راتوں میں شوربہ اوپرسے بالکل جم جاتا اور نیچے صرف پانی رہ جاتا، میں وہی کھاکر سوجایا کرتا۔ دیوبند آپ کا وطن تھا اور تمام اعزہ واقارب کے گھر یہیں تھے، لیکن طالب علمی میں ان کے یہاں جانے کا وقت بھی نہ ملتا، نہ محلے کے ہم عصر لڑکوں سے دوستانہ تعلقات کی نوبت آئی، حتی کہ آپ کو دیوبند کے تمام راستے بھی بخوبی معلوم