اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
مذاکرہ اور علمی چرچا کرتے تھے۔ تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ اس دور میں طالب علم کو ’’ماتقول‘‘ کے نام سے پکارتے تھے، اس لئے کہ اس زمانہ میں طلبہ باہم ایک دوسرے سے یوں کہتے تھے ’’ماتقول فی ہذہ المسئلہ‘‘ اس مسئلہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ یعنی بہت کثرت سے مذاکرہ کا رواج تھا۔ امام ابو حنیفہ کے کثرت تفقہ کا سبب اہل علم سے مذاکرہ و مناظرہ بتایا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ امام صاحب جب کپڑوں کی تجارت کرتے تھے، اس وقت بھی ان کا محبوب ترین مشغلہ علمی مذاکرہ ہی رہتا تھا۔ امام صاحب اور امام مالک کا تو مشہور قصہ ہے کہ مسجد نبوی میں عشاء کے بعد سے ایک مسئلہ میں گفتگو شروع کرتے اور صبح کی اذان ہوجاتی ،نہ ان میں کوئی طعن وتشنیع ہوتا، نہ کوئی اور نامناسب بات، (آب بیتی) امام ابو یوسفؒ کے متعلق بھی لکھا ہے کہ فقہاء کے ساتھ فقہ کا مذاکرہ بڑی رغبت اور بشاشت کے ساتھ کرتے تھے، کئی کئی روز کے مسلسل فاقوں کے باوجود اس میں فرق نہ آتا تھا۔ صاحب تعلیم ا لمتعلم لکھتے ہیں کہ ہمارے استاذ شیخ برہان الدین فرماتے تھے کہ میں اپنے تمام ساتھیوں پر اس وجہ سے فوقیت لے گیا کہ تکرار و مذاکرہ کبھی نہیں چھوڑتا تھا۔ ارسطو کی کتاب النفس کا ایک نسخہ کسی کے ہاتھ لگا، جس پر حکیم ابونصر فارانی کے قلم کی یہ عبارت تحریر تھی ’’اِنِّی قَرَأْتُ ہٰذَاالْکِتٰبَ مِائَۃَ مَرَّۃٍ‘‘ میں نے اس کتاب کو سو مرتبہ پڑھا ہے۔ میر سید شریف جرجانی اور تکرار و علمی مذاکرہ میر سید شریف جرجانی کو زمانۂ طالب علمی میں یہ شوق ہوا کہ ’’شرح مطالع‘‘ کو خود اس کے مصنف سے پڑھے، اسی دھن میں وہ ہرات پہنچے اور علامہ