اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
راسخ نہیں ہوسکتے۔ مشہور مقولہ ہے ’’ اَلسَّبَقُ حَرْفُٗ وَالتَّکْرَارُ اَلْفُٗ‘‘ یعنی سبق تو کم ہونا چاہئے اور تکرار و مذاکرہ زیادہ سے زیادہ ہوناچاہئے۔ علقمہ بن قیس کہتے ہیں ’’ اِحْیَائُ الْعِلْمِ الْمُذَاکَرَۃُٗ‘‘ مذاکرہ علم کا احیاء ہے نیز آپ نے فرمایا ’’ تَذَاکَرُ وْالْحَدِیْثَ فَاِنَّ حَیَاتَہٗ ذِکْرَہٗ‘‘ حدیث کا مذاکرہ کرتے رہو اس لئے کہ مذاکرہ ہی حدیث کا احیاء ہے۔ خلیل بن احمد کا مقولہ ہے کتابوں سے زیادہ اپنے سینے کے علم کا مذاکرہ کیا کرو ۔ لہٰذا طالب علم کو چاہئے کہ وہ تکرار و مذاکرہ کا خوب اہتمام کرے، صرف سبق سننے پر اکتفا نہ کرے، کیونکہ سبق کی بہ نسبت تکرار اور غوروخوض جتنا زیادہ ہوگا فہم و ادراک اتنا ہی بڑھے گا۔ حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہٗ نے حضرت تھانوی ؒ سے ایک مرتبہ پوچھا کہ کیا کتابیں پڑھتے ہو؟ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ مجھ پر اس سوال کا کچھ ایسا رعب پڑا کہ میں کتابوں کے نام بھول گیا، حضرت نے اس کو محسوس فرما کر ادھر ادھر کی باتیں شروع فرما دی، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ دیکھو ایک تو ہوتا ہے پڑھنا اور ایک ہوتا ہے گننا ، محض پڑھنا کافی نہیں، گننے کی بھی ضرورت ہے۔ پھر ایک قصہ سنایا کہ ایک عالم تھے جو ہدایہ کے حافظ تھے اور ایک دوسرے عالم تھے جو ہدایہ کے حافظ تو نہ تھے، مگر ہدایہ کو خوب سمجھ کر پڑھا تھا، دونوں میں ایک مسئلہ چھڑ گیا، حافظ ھدایہ نے پوچھا یہ مسئلہ کونسی کتاب میں ہے؟ غیر حافظ نے کہا ہدایہ میں ہے؟ انہوں نے کہا ہدایہ میں تو نہیں ہے، ہدایہ تو مجھے حفظ یاد ہے۔غیر حافظ نے کہا یہ مسئلہ تو ہدایہ ہی میں ہے، ہدایہ منگا کر مسئلہ دکھایا ، جس میں وہ مسئلہ بعینہ تو مذکور نہ تھا، لیکن اس کی کسی عبارت سے مستنبط ہوتا تھا، جس کی تقریر پر حافظ