اسلاف کی طالب علمانہ زندگی اور اصول و آداب کی مثالی رعایت |
|
تو ضرور نوٹ کرے۔اس لئے کہ استاذ کی تقریر مختلف کتابوں کے مطالعہ کا لب لباب اور نچوڑ ہوتی ہے، جس میں سے بعض مضامین تو محض القائی ہوتے ہیں، اسلئے نوٹ کرنے کی عادت بنا لے تاکہ وہ علوم محفوظ ہوجائیں۔ تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ طالب اپنے پاس قلم و کاغذ رکھے تاکہ استاذ کی تقریر میں عمدہ مضامین کو نوٹ کرسکے اور محفوظ رکھ سکے ،بعض علماء کا قول ہے’’مَنْ حَفِظَ شَیْأًفَرّ وَمَنْ کَتَبَ شَیْأً قَرَّ‘‘ یاد کی ہوئی چیز کا نکلنا ممکن ہے لیکن جو مضامین تحریر میں آگئے وہ جڑ پکڑ لیتے ہیں۔ اور انہوں نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ حضرت ہلال ابن یسارؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صحابہ کے سامنے علم و حکمت کی باتیں بیان فرما رہے ہیں ،میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپؐ نے جو کچھ ان سے فرمایا ہے وہ مجھے بھی سنا دیجئے ،آپؐ نے دریافت کیا ، کیا تمہارے پاس کاغذ ہے؟ میں نے عرض کیا یہ تو نہیں ہے، آپؐ فرمانے لگے کہ ہلال! کاغذ تو کبھی مت چھوڑا کرو ،اس لئے کہ خود کاغذ اور اس کے مالک قیامت تک خیر محسوس کرتے رہیں گے۔ چنانچہ ہمارے اسلاف و اکابر کا یہی طرز و طریق تھا کہ وہ مضامین کو اپنے نوشتوں میں محفوظ کرلیتے تھے اور اسی سے مضمون نگاری کی بھی استعداد پیدا ہوتی ہے۔ عصام ابن یونسؒ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دنیار میں ایک قلم خریدا تھا ، اسی غرض کے پیش نظر کو جو کچھ سنیں گے اسے لکھ لیا کریں گے۔ حضرت مولانا یحییٰ صاحبؒ نے تذکرۂ الخلیل میں لکھا ہے کہ انہوں نے دورۂ حدیث ا علی حضرت گنگوہی نوراللہ مرقدہٗ سے پڑھا اور پڑھتے وقت اس کا بھی اہتمام کیا کہ حضرت کی تقریرات جو سبق میں سنتے وہ خارج وقت میں ضبط