پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اردو کے مشہور شعر میں دلچسپ ترمیم فرمایا کہ میؔر کا شعر تھا: میر صاحب زمانہ نازک ہے دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار یعنی کوئی پگڑی اُچھال نہ دے کوئی کام ایسا ذلت کا نہ ہوجائے جس سے پگڑی کی عزت ختم ہوجائے۔ اس شعر میں، میں نے اضافہ کردیا کہ اب اس زمانہ میں دستار یعنی عمامہ اور پگڑی کم لوگ پہنتے ہیں۔ اس لیے اب شعر یوں ہونا چاہیے جو اس زمانے کے حسبِ حال ہے ؎ میر صاحب زمانہ نازک ہے دونوں ہاتھوں سے تھامیے شلوار اس پر سامعین بہت محظوظ ہوئے۔طلباء کو نصیحت مجلس کے بعد بہت سے طلباء بیعت ہونے کے لیے میزبان کے مکان پر آگئے۔ حضرتِ والا نے ان کو بیعت فرماکر ذکر بتادیا اور فرمایا کہ طالب علموں کی برکت لینے کے لیے میں نے بیعت کرلیا۔ آپ لوگ اصلاح کے لیے مقامی خلفاء میں سے جن سے مناسبت ہو تعلق قائم کرلیں کیوں کہ میں تو چلا جاؤں گا، دور کے طبیب سے مقامی طبیب زیادہ مفید ہوتا ہے اور نظروں کی اور دل کی حفاظت کی تلقین فرمائی۔ ایک مٹھی داڑھی اور ٹخنے تو سب علماء اور طلباء رکھتے ہیں بس آنکھوں کی حفاظت اور دل کی حفاظت کرلو نہ کالی کو دیکھو نہ گوری کو دیکھو بس اللہ پر نظر رکھو۔ چند دن کا مجاہدہ ہے اس کے بعد ؎ دنیا سے مَر کے جب تم جنت کی طرف جانا اے عاشقانِ صورت حوروں سے لپٹ جانا وہاں اپنی حوروں سے لپٹنا منع نہیں ہے لیکن دنیا میں مجاہدہ کرلو تاکہ اللہ تعالیٰ کو دکھانے کو ہو کہ میں نے آپ کے راستے میں بہت غم اُٹھائے ہیں، بغیر غم اٹھائے جاؤگے تو اللہ تعالیٰ کو