پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
دل میں مضمون آگیا تو اس کو روکنے میں تکلیف ہوتی ہے جیسے ماں کی چھاتی میں دودھ آگیا تو وہ بچہ کو دودھ پلانے پر مجبور ہوتی ہے، جب تک پلا نہیں لے گی اس کو چین نہیں آئے گا۔ اللہ والوں کا بھییہی حال ہوتا ہے جب،مضمون دل میں آگیا تو پھر یہ نہیں ہوتا کہ ارے بھائی!جب دس ہزار کا مجمع ہوگا تب بیان کریں گے وہ بیان نہ کرنے پر قادر نہیں ہوتا، بیان پر مجبور ہوتا ہے۔اللہ تک پہنچنے کا آسان راستہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کا راستہ جذب سے طے ہوتا ہے، خالی سلوک سے طے نہیں ہوتا، آخر میں سلوک بھی اللہ کے جذب ہی سے طے ہوتا ہے، ہر سالک کو اللہ تعالیٰ آخر میں جذب فرمالیتے ہیں تب وہ اللہ تک پہنچتا ہے۔ شیطان کو جذب نصیب نہیں ہوا تھا اسی لیے وہ مردود ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے اس کو کھینچا نہیں تھا، اللہ تعالیٰ کا کھینچا ہوا گمراہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ اللہ کی طاقت سب سے بڑھ کر ہے تو جس کو اللہ اپنی طرف کھینچے اس کو کون کھینچ سکتا ہے۔ مجذوب جذب سے ہے۔مجذوب کے معنیٰ پاگل کے نہیں ہیں۔ آج کل پاگل کو لوگ مجذوب کہہ دیتے ہیں۔ جو لنگوٹی باندھ کر ننگے پھرتے ہیں یہ مجذوب نہیں ہیں۔ مجذوب اس کو کہتے ہیں جس کو اللہ کھینچ لیتا ہے اور یہ کھینچنا کیسے ہوتا ہے؟ جس کو اللہ کھینچتا ہے اس کو دل میں محسوس ہوتا ہے ؎ نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوقِ عریانی کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو مجذوب کو محسوس ہوتا ہے کہ مجھ کو کوئی کھینچ رہا ہے، کوئی اپنا بنارہا ہے، گناہوں سے حفاظت کررہا ہے، گناہوں کا تقاضا ہے مگر گناہوں سے کوئی بچارہا ہے۔ اس کو خوب یاد کرلو کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے جذب کے کسی کا سلوک طے نہیں ہوتا۔ سلوک نام ہے اللہ کا راستہ چلنے کا۔ سلوک میں بندہ خود اللہ کی طرف چلتا ہے اور جذب میں بندہ کو اللہ تعالیٰ کھینچ لیتے ہیں۔ تو سلوکِ محض سے بندہ اللہ تعالیٰ تک کیسے پہنچ سکتا ہے، غیر محدود راستہ