پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اور خونِ جگر شامل ہے،بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شعر و شاعری کوئی چیز ہے، بعض نادان اس کو جائز نہیں سمجھتے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ۲۳ صحابہ رضی اللہ عنہم شاعر تھے۔ خود مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس اشعار ہی کی مجلس ہوتی تھی۔ اہلِ دل اور اہلِ درد محبت کے اشعار بہت اثر کرتے ہیں۔ چار چار گھنٹے کے وعظ میں جو اثر ہوتا ہے بعض دفعہ وہ ایک شعر میں ہوجاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیںاِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمِۃً؎ بعض شعر حکمت انگیز ہوتے ہیں۔اللہ کی یاد میں رونے کی تمنا مولانا رفیق صاحب حضرتِ والا کے اشعار پڑھ رہے تھے۔ جب یہ شعر پڑھا ؎ یوں بیانِ محبت زباں پر تو ہے اے خدا مجھ کو آنسو کا دریا بھی دے تو فرمایا کہ آنسو کے دریا پر مولانا رومی کا شعر یاد آگیا جو آٹھ سو برس پہلے کے بزرگ ہیں۔ میرے مرشد مولانا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مولانا روم بہت پیارے آدمی ہیں۔ اللہ کے پیارے سے پیار سیکھو۔ فرماتے ہیں ؎ اے دریغا اشکِ من دریا بدے تانثارِ دلبرِ زیبا شدے اے کاش! میرے آنسو دریا ہوجاتے تاکہ میں اپنے محبوبِ حقیقی تعالیٰ شانہ پر آنسوؤں کے دریا کا دریا قربان کردیتا۔ عاشقوں کو ایک دو آنسو رونے سے تسلی نہیں ہوتی۔ یہ مولانا روم ہیں، عاشقوں کے امام ہیں، ہمیں عشق و محبت سکھارہے ہیں کہ دو قطرے آنسو گرا کر کیا مزہ پاؤگے۔ ارے! تمنا کرو کہ یہ آنسو دریا ہوجائیں تو میں اپنے مالک پر، اپنے مولیٰ پر قربان کردوں۔ کیا تمنا اور کیا محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے عشق و محبت سے کچھ حصہ ہم کو بھی اور ہمارے دوستوں کو بھی عطا کردے۔ ------------------------------