پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
جلوت مع الحق…. خلوت سے بڑی نعمت ایک صاحب نے حضرتِ والا کو حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار سنائے ؎ مجھے دوست چھوڑدیں سب کوئی مہرباں نہ پوچھے مجھے میرا رب ہے کافی مجھے کل جہاں نہ پوچھے شب و روز میں ہوں مجذوبؔ اور یاد اپنے رب کی مجھے کوئی ہاں نہ پُوچھے مجھے کوئی ہاں نہ پوچھے حضرتِ والا نے کئی بار یہ اشعار سنے اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ خواجہ صاحب نے یہ اشعار غلبۂ حال میں کہے ہیں لیکن غلبۂ حال وقتی ہوتا ہے، یہ کیفیت باقی نہیں رہتی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خواجہ صاحب کا عمل ہمیشہ اس کے خلاف رہا ہے۔ خواجہ صاحب ہمیشہ اپنے اللہ والے دوستوں میں رہتے اور اپنے اشعار سے خود بھی مست ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی مست کرتے تھے اور اپنے شیخ کے عاشق تھے، حضرت حکیم الامت کے تمام مریدوں میں خواجہ صاحب سب سے بڑے عاشق تھے۔ حضرت حکیم الامت کے انتقال کے بعد بھی گوشۂ تنہائی میں نہیں بیٹھے بلکہ اپنے دل کو بہلانے کے لیے اپنے پیر بھائیوں کے پاس جاتے تھے۔ کبھی ایک پیر بھائی کے پاس کبھی دوسرے پیر بھائی کے پاس۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری کے پاس بھی تشریف لائے تھے۔ شیخ کی جدائی میں بے قرار رہتے تھے اور پیر بھائیوں کو دیکھ کر تسلی حاصل کرتے تھے۔ انسان اُنس سے ہے اس لیے ایک دوسرے سے مل کر اس کو تسلی ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مناسبت ہو۔ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ وسلم باب معراج شریف صفحہ ۵۶ پر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر تشریف لے گئے تو جب وہ مقام آیا جس کے آگے جبرئیل علیہ السلام بھی نہیں جاسکتے تھے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام وہاں ٹھہر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جبرئیل! کیا کسی مقام میں کوئی دوست اپنے دوست کو چھوڑتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر میں اس مقام سے آگے بڑھوں گا تو