پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
جب جاؤ حسینوں کے پیچھے ڈنڈا لیے پھرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آج کل دنیا میں سب سے بڑا یہی مرض ہے۔ اگر حسینوں سے نظر بچالو اور دل بچالو تو اللہ کا راستہ بالکل آسان ہے، مجاہدہ سے مشاہدہ ہوگا۔ میں پوچھتا ہوں کہ جہاں کالرا پھیلا ہوا ہو تو حکیم وہاں نزلہ زکام کی دوا دے گا یا کالرا کا علاج کرے گا؟ جو مرض مہلک ہوتا ہے، پہلے اُسی کا علاج کیا جاتا ہے۔ بدنگاہی، حُسن پرستی اور عشقِ مجازی کی مہلک وبا پھیلی ہوئی ہے جس سے ایمان تباہ ہورہا ہے اور لوگ اس کو معمولی مرض سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ بدگمانی بھی کرتے ہیں لیکن مجھے اس کی پروا نہیں۔ میں اللہ کے لیے اپنی عزت کو داؤ پر لگاکر اس مرض کو بیان کرتا ہوں اور ان شاء اللہ! کرتا رہوں گا۔حُسنِ مجازی کی حقیقت ارشاد فرمایا کہحُسنِ مجازی گُو مُوت کا مجموعہ ہے ورنہ کوئی حسین ایسا دِکھلا دو جو ہگتا،موتتا اور پادتا نہ ہو، کوئی ایسی حسین عورت دِکھلاؤ جو ہگتی، موتتی اور پادتی نہ ہو۔ کھال کی ظاہری چمک ہے جس سے آدمی دھوکا کھاجاتا ہے۔ میرا شعر ہے ؎ گوبر کی طشتری پر چاندی کا ورق ہے وہائٹ کلر کے حُسن سے دھوکا نہ کھائیے ورق ہٹاؤ تو گوبر نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے خبر دے دی کہ نگاہیں بچاؤ۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں اگر ان حسینوں کو دیکھنا مفید ہوتا تو قرآنِ پاک میں کیوں منع فرماتے؟ کہ اے نبی! ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔ معلوم ہوا کہ ہمارا پیدا کرنے والا ہمیں مَضَرَّت سے بچاتا ہے کہ ہمارے بندے کسی حسین کو نہ دیکھیں کہ اس کے عشق میں پھنس کر اپنے کو ناپاک کرلیں۔ بتاؤ کوئی عورت ایسی ہے جس کو دیکھنے سے مذی نہ نکلے۔ تو جو محبت ناپاک کرنے والی ہے وہ کیسے پاک ہوسکتی ہے۔ جس وقت آدمی حسینوں کو دیکھتا ہے بتاؤ اس وقت خدا یاد آتا ہے؟ بس جو ہمارے اللہ کو بُھلادے اس سے بڑھ کر ہمارا دشمن کون ہوسکتا ہے۔