پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کرلیا اگر آپ مغفرت اور رحمت نہیں فرمائیں گے تو ہم بڑے خسارے میں پڑجائیں گے، ہمارا آپ کے سوا کوئی نہیں ہے، اگر آپ ناراض ہوئے تو ہمارا کہیں ٹھکانا نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں کیوں کہ زمین بھی آپ کی ہے،آسمان بھی آپ کا ہے اور عقل کی پوجا کرنے والے ابلیس کی شامتِ اعمال نے اس کو بحث و مباحثہ پر مجبور کیا کہ اے اللہ! آپ نے ان کو خاک سے پیدا کیا اور مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور آگ افضل ہے خاک سے۔ یہ بحث نشانی ہے کہ وہ محروم القسمت تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی علامت یہ ہے کہ فوراً رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا کہتے ہیں کہ اے اللہ! مجھ سے قصور ہوگیا اور اگر مگر لگانا کمینوں کا کام ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی جلد سوم میں فرمایا کہ اگر کی شادی ہوئی مگر سے، بچہ جو پیدا ہوا اس کا نام ہے کاش کہ، اگر مگر والوں کو ہمیشہ کاش کاش کرنا پڑتا ہے، مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے ؎ مرضی تری ہر وقت جسے پیشِ نظر ہے پھر اس کی زباں پر نہ اگر ہے نہ مگر ہے اس لیے اگر مگر میں نہ رہو۔ لہٰذا حکیم الامت تھانوی کی یہ نصیحت ہے کہ اللہ کے راستے کو عقل سے طے نہ کرو، عشق کو عقل پر غالب رکھو۔ فرمایا: عقیدت عقل سے تعلق رکھتی ہے اور محبت عقل سے بالاتر ہے اور فرمایا کہ مجھے اہلِ عقیدت کی قدر نہیں ہے اہلِ محبت کی قدر ہے اور عقیدت کی حضرت نے بہت ہی مزاحیہ مثال دی کہ عقیدت کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے کا آلۂ تناسل کہ بڑھا تو ایک ہاتھ کا ہوگیا اور غائب ہوا تو بالکل ہی غائب ہوگیا، وجود ہی نہیں رہتا، ایسا غائب ہوتا ہے کہ نشانی بھی نہیں چھوڑتا۔حضرت آدم علیہ السلام کے نسیان کو عصیان سے تعبیر کرنے کی وجہ اللہ تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ فَنَسِیَحضرت آدم علیہ السلام بھول گئے تھے، اس پر ایک علمی اشکال ہے کہ جب بھول گئے تھے تو عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ ؎ کیوں ------------------------------