پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اگر کسی نے کسی حسین کا تحفہ لے لیا اور کھا بھی لیا تو اب کیا کرے؟ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ قَے کردے لیکن قے کرنا واجب نہیں ہے، بس اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلے کہ یا اللہ تعالیٰ! آیندہ کسی حسین کا ہدیہ نہیں لوں گا۔ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑاکے معافی مانگ لے اور اس حسین سے بھی نظر بچاکر کہہ دے یا کسی سے کہلوادے کہ اب آیندہ ہدیہ نہ لانا، قبول نہیں کروں گا۔ اس سے کہلوادینا ضروری ہے ورنہ وہ سمجھے گی کہ ایک دفعہ لے لیا تو آیندہ بھی ضرور لیں گے جب کہ وہ افسر بھی ہو اور ماتحت تو افسر کو اور بھی خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری ترقی ہو، تو کہہ دو کہ ہم خوش نہیں ہوئے ہم کو تکلیف پہنچی۔ ہمیں ہدیہ کی ضرورت نہیں، بغیر ہدیہ کے ہم ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کریں گے، جو بے اُصولی کرے گا اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کریں گے اور اگر بے اُصولی نہیں کروگے تو سب کے ساتھ انصاف کریں گے۔ لہٰذا ہمیں کوئی ہدیہ دینے کی جرأت نہ کرے۔جان کے لالے ارشاد فرمایا کہجب مصیبت آتی ہے اور مرض شدید ہوجاتا ہے تو کوئی حسین یاد نہیں آتا۔ میر صاحب سے پوچھ لیجیے، جب ان کی انجیوگرافی ہورہی تھی تو کون حسین یاد آرہا تھا؟ اس وقت تو اللہ والوں سے دعا کراتا ہے کہ میری جان کی حفاظت کی دعا کیجیے۔جب جان کے لالے پڑتے ہیں تو کوئی لالے یاد نہیں آتے۔ یہ شریف بندوں کا کام نہیں کہ جب مصیبت پڑے تب ہی اللہ کو یاد کرے۔ حدیثِ پاک میں ہے: اُذْکُرُوا اللہَ فِی الرَّخَاءِ یَذْکُرْکُمْ فِی الشِّدَّۃِ؎ تم اللہ کو سُکھ میں یاد کرو اللہ تعالیٰ تمہیں دُکھ میں یاد رکھیں گے۔حُسن پرستی کی مہلک وبا ارشاد فرمایا کہبعضے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے یہاں ------------------------------