پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
گناہوں سے پاکی نصیب ہونے کا راستہ ارشاد فرمایا کہ بدنظری سے اللہ کی لعنت برستی ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎ اللہ تعالیٰ لعنت کرے دیکھنے والے پر اور جو اپنے کو دکھانے کے لیے پیش کرے۔ اور جب لعنت برسے گی تو رحمت کہاں سے آئے گی کیوں کہ لعنت کے معنیٰ ہیں اللہ کی رحمت سے دوری۔ لعنت سے اللہ کی رحمت دور ہوجاتی ہے اور اللہ کی رحمت جب دور ہوگئی تو انسان نفسِ امارہ کے حوالے ہوجاتا ہے۔ اور نفس تو سراپا شر ہے۔ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ ؎ لیکن اس کے شر سے کون بچ سکتا ہے اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّیْ صرف وہ شخص جس پر رحمت اللہ کی ہو اور اللہ کی رحمت برستی ہے تقویٰ کی برکت سے اور اس دور میں تقویٰ کا تقاضہ یہ ہے کہ نگاہوں کو بچاؤ۔ اللہ کی رحمت، اللہ کا فضل جس پر ہوتا ہے وہی گناہوں سے بچ سکتا ہے خصوصاً بدنگاہی سے ورنہ واللہ کہتا ہوں کتنی ہی مؤثر تقریر ہو، سب سنتا ہے لیکن نظر بچاکر اِدھر اُدھر دیکھتا ہے کہ کوئی حسین ملے، جب تک کہ اللہ کا فضل نہ ہو بُری عادت جاتی نہیں اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّی نصِّ قطعی ہے۔ نصِّ قطعی سے ثابت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے تب انسان کو گناہوں سے نفرت ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کا استحضار رہے کہ جس پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہوگا وہی نفس کے شر سے بچے گا۔ اور دوسری آیت: وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰکِنَّ اللہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ یعنی تم میں سے کوئی پاک نہیں ہوسکتا لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اسی کو پاک کرتے ------------------------------