پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہوجاؤ توبہ سے آپ پھر متقی ہوگئے پھر اللہ کے پیارے ہوگئے۔ تو بہ ایک لمحہ میں فرش سے عرش تک پہنچادیتی ہے، کافر کو مسلمان، دشمن کو دوست فاسق کو ولی بنادیتی ہے۔تفسیر رَبَّنَا ظَلَمْنَا... الخ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایافَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ؎ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کلمات لے لیے۔ وہ کیا کلمات تھے؟ حضرت علامہ آلوسی مفتیٔ بغداد نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ وہ کلمات رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ؎ ہیں۔ رب کا عطا کردہ مضمون کیسا ہوگا، جن کو معافی دینا ہے ان ہی کا مضمون ہے۔ بعض نادان اور گستاخ لٹریچر نویس سمجھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوگئی حالاں کہ ان سے غلطی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اللہ تعالیٰ جو عالم السرائر والبواطن ہیں، جو سینوں کے رازوں سے باخبر ہیں، وہ فرمارہے ہیں فَنَسِیَ کہ آدم علیہ السلام بھول گئے تھے وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا؎ ، نکرہ تحت النفی ہے جو فائدہ عموم کا دیتا ہے یعنی معصیت کا کوئی عزم ہم نے ان کے اندر نہیں پایا۔ ہم نے جو عَصٰی اٰدمفرمایا ہے اس کی تفسیر نَسِیَ اٰدَم ہے، عصیان معنیٰ میں نسیان کے ہے۔ میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب عصیان معنیٰ میں نسیان کے تھا تو پھر اللہ تعالیٰ نے عَصٰی اٰدمُکیوں نازل کیا؟ فرمایا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کے علوِّ مرتبت اور بلندئ شان دکھانے کے لیے تھا کہ ان کا درجہ ہمارے نزدیک اس قدر بلند ہے کہ ان کے نسیان کو بھی ہم عصیان سے تعبیر کررہے ہیں، جو جتنے بڑے ہوتے ہیں ان کی شانِ عظمت اور شانِ محبوبیت کی وجہ سے ان کی معمولی سی چوک کو بھی مالک بہت اہمیت دیتا ہے یہ ان کے مقرب اور محبوب ہونے کی دلیل ہوتی ہے اس لیے جو نادان عصیان کی تفسیر نسیان نہیں کرتے ان کو تفسیر کا حق نہیں ہے۔ جس کو اتنی ------------------------------