پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا۔ یہ نظر مُسْتَشِیْرًا تھی یعنی مشورہ لینے کے لیے تھی کہ آپ کی کیا رائے ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا اَللہُ مُشْتَاقٌ اِلَیْکَ اللہ آپ کا مشتاق ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰیپھر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے روح قبض کرلی۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق بڑھانے کے لیے ہے اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰیاے اللہ! آپ سب سے بہترین دوست ہیں۔ بعض بزرگوں نے انتقال کے وقت یہ شعر پڑھا ؎ خرم آں روز کزیں منزلِ ویراں بروم راحتِ جاں طلبم و از پئے جاناں بروم کیا مبارک وہ وقت ہوگا جب میں اس منزلِ ویراں سے اللہ کی طرف روانہ ہوں گا اور اپنی جان کا آرام پاؤں گا اور محبوبِ حقیقی سے ملوں گا۔ جوہانسبرگ ایئر پورٹ سے سوا گیارہ بجے جہاز نے ڈربن کے لیے پرواز کی اور بارہ بجے ڈربن ایئر پورٹ پر آمد ہوئی۔ ایئر پورٹ پر حضرتِ والا کی زیارت کے لیے آنے والوں کا ایک جمِ غفیر تھا مگر اس وقت فوراً اسٹینگر روانہ ہونا تھا جہاں سے عبدالقادر ڈیسائی صاحب کار لے کر آئے ہوئے تھے۔ زائرین سے ملاقات کے بعد حضرتِ والا اسٹینگر کے لیے روانہ ہوئے اور تقریباً ایک گھنٹہ بعد ڈیسائی صاحب کے گھر پہنچے جہاں انہوں نے مہمانوں اور مجلس میں آنے والوں کے لیے زبردست انتظامات کیے تھے۔مجلس برمکان عبدالقادر ڈیسائی صاحب،اسٹینگر ۱۴؍ربیع الاول ۱۴۲۵ھ مطابق ۴؍مئی ۲۰۰۴ء منگل، بوقت۱۱بجے صبح پروفیسر سید سلمان ندویؔ صاحب نے حضرتِ والا کی نعت ’’سوئے طیبہ چلے جب نبی کے قدم‘‘پڑھی اور انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ اس کے بعد مولانا ممتاز الحق صاحب کے بیٹے مولانا مصطفی کامل نے جو امریکا سے آئے ہیں حضرت والا کے اشعار پڑھے اور جب یہ شعر پڑھا ؎