پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کرلی، ذکر کرلیا، تہجد پڑھ لی لیکن جب گناہ سے بچنے کا موقع آیا تو ہتھیار ڈال دیے اور گناہ کرلیا۔ عبادت کرنا کیا کمال ہے، عبات میں تو مزہ آتا ہے،گناہ چھوڑو تو مردانگی معلوم ہو ورنہ ہیجڑا ہے، مخنّث ہے، خبیث الطّبع ہے وہ شخص جو گناہ نہیں چھوڑتا۔ لہٰذا اللہ کے لیے اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ ورنہ اتنے جوتے پڑیں گے کہ اللہ کے عذاب کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر گناہوں کو نہ چھوڑا تو قیامت کے دن قلعی کھل جائے گی کہ ٹوپی گول اور کرتا لمبا اور پاجامہ ٹخنے سے اوپر، مولانا آپ کو کیا ہوا تھا جو یہ کام آپ کررہے تھے، شرم نہیں آئی آپ کو۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہمارے دوستوں کو گناہوں سے منہ کالا کرنے سے اور قیامت کے دن کی رسوائی سے پناہ میں رکھے۔بدنگاہی سے بچنا فرضِ عین ہے ارشاد فرمایا کہبدنگاہی سے بچنا مستحب یا سنتِ مؤکدہ نہیں ہے، فرضِ عین ہے جیسے کہ نماز روزہ فرض ہے اور اس زمانے میں تقویٰ کی جان ہے۔ جو بدنگاہی میں مبتلا ہے،وہ ہرگز ولی اللہ نہیں ہوسکتا، ساری زندگی نالائق رہے گا، ساری زندگی نافرمان اور فاسق لکھا جائے گا۔ جس نے آنکھ دی ہے اسی کا حکم ہے کہ نگاہوں کو بچاؤ۔ اگر آنکھ میں روشنی نہ ہوتییا اللہ مادر زاد اندھا پیدا کرتا تو پھر کہاں سے دیکھتے؟ کیا اللہ کا یہی شکر ہے کہ آنکھ کی روشنی حرام میں استعمال کرو؟ حرام میں استعمال کرنا کیایہ شرافت ہے؟ بس خوب سمجھ لو کہ گناہوں سے بچنا فرضِ عین ہے اور عبادت میں فرض نماز، سنتِ مؤکدہ اور وتر کی نماز پڑھنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ نجات ہوجائے گی۔ چاہے کوئی نفل نہ پڑھو مگر گناہ چھوڑنا فرض ہے، اللہ کو ناراض کرنا حرام ہے، بدمعاشی ہے، حماقت ہے، ناپاکی ہے، نافرمانی ہے، بے غیرتی ہے۔ کمینہ ہے وہ شخص جو اللہ کو ناراض کرتا ہے۔ اللہ کی نعمتیں کھاتا ہے اور نعمت دینے والے کی نافرمانی کرتا ہے۔ زمین اللہ کی ہے، آسمان اللہ کا ہے، کسی کو حق نہیں کہ اللہ کی زمین پر اور اللہ کے آسمان کے نیچے گناہ کرے۔ جو گناہ کرنا چاہتا ہے تو اللہ کی زمین پر اور اللہ کے آسمان کے نیچے نہ رہے۔ کون سی جگہ ایسی ہے جو اللہ کی نہ ہو اور جہاں اللہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کھانے میں اور