پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
دیکھتا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ اس کی توفیق کا شکر گزار ہوں۔ جن کے گال بالکل صاف ہیں ان کی طرف دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرا نفس شرارت نہ کرجائے۔ شرارت دل میں ہوسکتی ہے کیوں کہ جو شیخ ہوتا ہے وہ زبان سے اظہارِ شرارت نہیں کرسکتا کیوں کہ شیخ کو عزت کا بھی خیال ہوتا ہے۔ اس لیے شیخ کوئی نامناسب حرکت تو نہیں کرے گا لیکن دل میں خیال آسکتا ہے اس لیے احتیاط کرنا چاہیےاَلْمُتَّقِیْ مَنْ یَّتَّقِی الشُّبُھَاتِمتقی وہ ہے جو شبۂ گناہ سے بھی بچے۔ نفس بہت ہی شریر ہے اس کے مکر سے وہی بچ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو ورنہ بہت بڑے بڑے پڑھے لکھے اور شریف لوگ نفس کی چال میں آجاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں دیکھتے ہو؟ تو کہتے ہیں کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ اگر خاص بات نہیں ہے تو دیکھتے کیوں ہو؟ دیکھنا ہی دلیل ہے کہ خاص بات ہے۔بڈھیوں کے جلوس کا مراقبہ ارشاد فرمایا کہ نوجوان لڑکیوں کے ہجوم پر نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹالو بلکہ راستہ بدل دو اور پھر مراقبہ کرو کہ اَسّی برس کی بڈھیوں کا ایک جلوس جارہا ہے، کوئی جوان ہے ہی نہیں، سب بڈھیوں کی چھاتیاں ایک ایک فٹ نیچے لٹکی ہوئی ہیں، منہ میں دانت نہیں ہیں، کمر جُھکی ہوئی ہے۔ آنکھوں پر گیارہ نمبر کا چشمہ لگا ہوا ہے۔ سفید بالوں کی چھوٹی سی چُٹیا گدھے کی دم کی طرح لٹکی ہوئی ہے۔ اس سے دل کو نفرت ہوگی کیوں کہ یہی سولہ سال کی تو اَسّی سال کی ہوں گی۔ جب چھاتیاں لٹکی ہوں گی، گال پچکے ہوں گے منہ میں دانت نہیں ہوں گے اس وقت توبہ کرنا کوئی کمال نہیں۔ اس وقت توبہ کرو اور شبابِ حسن کو نہ دیکھو تو اللہ کے ولی ہوجاؤ گے۔ حسینوں سے نظر بچانے میں نفس کو تکلیف ہوتی ہے مگر روح کو آرام ملتا ہے۔اللہ کا پیارا بننے کا راستہ ارشاد فرمایا کہ جو بھلائی ہمیں ملتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے، اللہ کی عطا ہے ہمارا کمال نہیں ہے، کوئی تالیف و تحریر ہوجائے یا اچھی تقریر ہوجائے یا اور