پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
خَیْرُالرّٰحِمِیْن کے معنیٰ رَبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ دیکھو سب سے بڑے پیارے نے یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سب سے بڑے پیارے کو یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب سے بڑا پیارا وظیفہ دیارَبِّ اغْفِرْ الخ بس مغفرت اور رحمت مانگو، اسی سے نجات ہوگی، قابلیت کام نہیں دے گی، قابلیت میں تو فی نکل سکتا ہے کہ فِیْہِ نَظَرٌ لیکن رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ میں کوئی فِیْہِ نَظَرٌ نہیں ہے کیوں کہ اس میں قصور کا اعتراف ہے کہ یا اللہ! ہم قصور وار ہیں، خطا کار ہیں بس ہمیں بخش دیجیے اور اللہ تعالیٰ خیر الرّاحمین ہیں اور خیر الراحمین کے کیا معنیٰ ہیں؟ کیوں کہ دنیا میں جتنے رحم کرنے والے ہیں حادث اور فانی ہیں، اللہ تعالیٰ قدیم ہیں، واجب الوجود ہیں تو قدیم کا مقابلہ حادث کیسے کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قدیم ذات کی رحمت غیر محدود ہے اور اُن فانی اور حادث رحم کرنے والوں کی رحمت محدود ہے چاہے ماں باپ ہوں یا اور کوئی ہو سب کی محبت و رحمت محدود ہے تو محدود محبت غیر محدود محبت، غیر محدود مغفرت و رحمت کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے۔ حافظ ضیاء الرحمٰن صاحب امریکی جو سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور مطہر محمود جو لاہور سے تعلق رکھتے ہیں ان دونوں کے لیے فرمایا کہ دو بندے مستقل میری خدمت میں ہیں۔ ایک امریکی ہے جو امریکا سے آئے ہیں اور ایک لاہوری ہیں، دونوں پنجابی ہیں۔ میری خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اہلِ پنجاب کو منتخب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ان کوجزائے خیر دے، ہم کیا جزاء دے سکتے ہیں، اس لیے اسلام نے سکھایا کہ یہ مت کہو کہ میں اس کی جزا دوں گا بلکہ کہو جزاک اللہ یعنی اللہ تعالیٰ تم کو اس کی جزاء دے کہ وہ اپنی شان کے مطابق دے گا، بندہ کیا جزاء دے سکتا ہے اسلام کی کتنی بڑی خوبی ہے کہ ہر بات میں اللہ کو یاد کرو، ان کا نام لینے کو بہانہ چاہیے ؎ ان کے ملنے کا بہانہ چاہیے نام لینے کا بہانہ چاہیے