پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
زیادہ قیمتی ہے؟ اس واقعہ کو بیان کرکے مولانا نصیحت فرماتے ہیں کہ یہ حسین زیادہ قیمتی ہیں یا اللہ کا حکم زیادہ قیمتی ہے۔ اب فیصلہ کرلو کہ ان حسینوں کو نظر انداز کرنا چاہیے یا اللہ تعالیٰ کے حکم کو؟ ان حسینوں سے نظر بچاکر اپنا دل توڑ دینا چاہیے یا اللہ کا حکم توڑنا چاہیے؟ باوفا بندے وہ ہیں جو اللہ کے حکم کو نہیں توڑتے، اپنے نفس کی خواہش کو توڑدیتے ہیں، وہ کیسا باوفا ہے جو کہتا ہے کہ میں اللہ کا باوفا ہوں اور نفس کا غلام بنا ہوا ہے، نفس کی بات مانتا ہے اور اللہ کا قانون توڑ دیتا ہے حالاں کہ اللہ کے مقابلے میں کسی چیز کی کوئی قیمت نہیں، پوری دنیا پیشاب پاخانہ کا مجموعہ ہے، ساری دنیا مردار ہے، ہر چیز ہلاک اور موت رسیدہ ہونے والی ہے، دنیا میں کوئی چیز نہیں جو باقی رہے۔ بچہ جوان ہوا، جوان بڈھا ہوا اور بڈھا قبر میں گیا۔ یہاں سب مرنے ہی والے ہیں تو مرنے والوں پر کیوں مرتے ہو، اللہ پر مرو تو تم بھی باقی ہوجاؤ گے۔ جو اللہ کا باوفا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کے ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور میرے دوستوں کو اور سب کو باوفا بنادے، جان دے دیں مگر گناہ نہ کریں ؎ جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا جان بچانے کے لیے تھوڑی ہے جان تو اللہ پر قربان کرنے کے لیے ہے۔حضرتِ والا کی ذرّہ نوازی اور اندازِ لُطف و کرم حضرتِ والا نے احقر راقم الحروف،حافظ ضیاء الرحمٰن صاحب اور مطہر محمود صاحب سے فرمایا کہ تم تینوں ایک لائن میں کھڑے ہوجاؤ۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کو آپ نوکر رکھ لیں اور ایک لاکھ رین مہینہ دیں تو ان لوگوں سے پوچھ لیجیے کہ یہ یہاں رہیں گے؟ عرض کیا کہ ایک لاکھ کیا چیز ہے ساری دنیا کی سلطنت دے دیں تب بھی نہیں رہیں گے بلکہ جو دعوت دے گا اس کی بھی خیر نہیں کہ نالائق تو سمجھتا ہے کہ پیسوں کی خاطر میں حضرت کو چھوڑ دوں گا! فرمایا کہ دیکھو ان تینوں نے زندگی کو اللہ کے لیے وقف کردیا خصوصاً میر صاحب نے تو شادی بھی نہیں کی، بڈھے ہوگئے، کنوارے بڈھے ہیں۔ یہ تین نمونے پیش کررہا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ رین دکھاؤ اور مولوی کو خریدلو، جھوٹے ہیں وہ۔ اگر اصلی