پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کرنا تو سخت بیماری ہے ہی مگر گناہوں کا شوق رکھنا بھی بیماری ہے۔ اللہ والوں کے دل میں گناہوں کی حسرت بھی نہیں رہتی۔ اللہ والے تو گناہ کی حسرت سے بھی پناہ مانگتے ہیں کہ یااللہ! میں گناہوں سے تو پناہ چاہتا ہی ہوں گناہوں کی حسرت اور تمنا سے بھی پناہ چاہتا ہوں۔ یا اللہ! میرے دل کو اس طرح پاک کردیجیے کہ گناہوں سے بھی نفرت رہے اور گناہوں کی حسرت بھی نہ رہے۔ اللہ گناہوں سے بھی پاک کردے اور گناہوں کی تمنا سے بھی پاک کردے۔ جس دن یہ نصیب ہوگیا اسی دن دل میں اللہ کو پاجاؤگے۔حسینوں سے نہ ہدیہ لو نہ دو ارشاد فرمایاکہپی آئی اے کے ایک افسر نے جو مجھ سے تعلق رکھتے ہیں بتایا کہ ایک ایئر ہوسٹس نے انہیں حلوہ پیش کیا جو وہ گھر سے بناکر لائی تھی وہ انہوں نے قبول کرلیا لیکن دوسرے وقت اس کو ڈانٹ لگائی اور کہا کہ یہ نہ سمجھنا کہ حلوہ دینے سے میں کوئی تمہارے ساتھ رعایت کروں گا۔ یہ سُن کر میں نے ان سے کہا کہ ایک مسئلہ سُن لو کہ اگر کوئی حسین ہدیہ دے تو اس کا ہدیہ قبول نہ کرو کہ ہدیہ قبول کرنے سے اس کی محبت بڑھ جائے گی۔ شیطان کان میں کہے گا کہ پٹی ہوئی ہے، پٹی ہوئی کو پٹالو۔ اب کوئی کہے گا کہ اگر ہدیہ واپس کرتے ہیں تو اس کا دل ٹوٹتا ہے تو دل توڑ دو لیکن قانونِ الٰہی کو مَت توڑو۔ اللہ کا قانون زیادہ قابلِ احترام ہے یا ان کا دل زیادہ قابلِ احترام ہے؟ اللہ کے قانون کے سامنے دل کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کا ہدیہ واپس کردو اور کہہ دو کہ تمہارا ہدیہ اس لیے قبول نہیں کہ اس سے تمہاری محبت بڑھ جائے گی جو حرام ہے۔ لہٰذا یاد رکھو کہ حسینوں کا ہدیہ قبول کرنا فتنہ ہے۔ جس نے ہدیہ قبول کرلیا ہو وہ اللہ سے توبہ کرے کہ یا اللہ! اب آیندہ کبھی قبول نہیں کروں گا۔ حسینوں کو نہ ہدیہ دینا جائز ہے نہ لینا جائز ہے۔ ہدیہ دینے میں بھی خطرہ ہے کہ یہ تو پٹانے کا طریقہ ہے اور ہدیہ لینے سے بھی محبت بڑھتی ہے۔ لہٰذا اللہ کے راستے میں سخت رہو، جلاد رہو، بالکل لچک پید انہ ہو، نہ دل میں، نہ جسم میں، نہ زبان میں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی آپ کو سنکھیا پیش کرے اور کہے کہ تھوڑا سا چکھ لیجیے، بہت مزیدار ہے تو آپ