پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
سترہ سال حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہا۔ پھر حضرت مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں ہوں۔ دیکھو زندگی کا بہت بڑا حصہ اللہ والوں کے ساتھ اختر نے گزارا ہے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں ہے؟ اگر وہ توفیق نہ دیتا تو ہمت ہوتی؟ سوچتا کہ اپنے مستقبل کی فکر کرو، نوکری کرو، کہیں پیسہ کماؤ۔ لیکن شیخ کے ساتھ کراچی میں سال بھر رہ گیا۔ میرے بال بچے ہندوستان میں تھے اور بہت تکلیف اور سخت حالات میں تھے۔ ایسے ایسے دن گزرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس طرح انہوں نے تربیت کی وہ اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص ہے کہ انہوں نے توفیق دی۔ اپنے راستے کے غم جس کو دیں ان کا احسان ہے، ان کے راستے کا غم پھولوں سے افضل ہے۔ گناہوں سے بچنے میں بھی تو غم ہوتا ہے مگر اس غم پر دنیا بھر کے پھول، دنیا بھر کی خوشیاں قربان ہوجائیں تو اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔جھوٹے خداؤں کے بطلان کی عجیب دلیل ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کا ہم لوگوں پر احسان ہے کہ ایمان عطا فرمادیا جس کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندے بھی گناہ گار اور نالائق ورنہ فرعونی مادہ تو اندر موجود ہے، ہم بھی کہہ دیتے اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ اگرچہ فرعون بھی ہگتا تھا، موتتا تھا اور ہوا بھی کھولتا تھا مگر اس کو شرم بھی نہیں معلوم ہوئی کہ پادنے والا، ہگنے والا بھی کہیں رب ہوسکتا ہے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ اپنے کو بڑا سمجھنے والا بے وقوف ہوتا ہے۔ جو جتنا بڑا احمق ہے اتنا ہی بڑا متکبر ہوتا ہے اور جو عقل مند ہے وہ اپنے کو کچھ نہیں سمجھتا کہ میں کیا ہوں، باپ کی منی اور ماں کے حیض سے پید اہوا ہوں۔ انسان کا میٹریل ایسا ہے کہ اگر سوچے تو کبھی تکبر نہیں آسکتا۔ فرعون اپنا میٹیریل بھول گیا تھا۔ خیر میٹیریل بھول جاتا تو پھر بھی اتنا عجیب نہیں کہ بالغ ہوئے پندرہ سولہ سال ہوگئے اس لیے کہہ سکتا ہے کہ باپ کا نطفہ اور ماں کا حیض بھول گیا لیکن ہگنا، موتنا اور پادنا تو روزانہ ہے۔ اس ظالم کو پادتے ہوئے اور ہگتے ہوئے اور موتتے ہوئے یہ خیال نہیں آیا کہ کہیں خدا بھی ایسا ہوسکتا ہے جو ہگتا بھی ہو اور پادتا بھی