پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
دوستوں کے پاس چلا گیا۔ معلوم ہوا کہ دل صرف اللہ والوں کی صحبت میں بہلتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مناسبت ہو۔ انسانوں میں باخدا رہنا تنہائی سے بہتر ہے۔ عطائے نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک عرصہ غارِ حرا میں رہے لیکن عطائے نبوت کے بعد پھر آپ کا غارِ حرا میں جانا ثابت نہیں۔ جب آپ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو پھر آپ کارِ نبوت میں مشغول ہوگئے۔ اسی طرح نسبت عطا ہونے کے بعد کوئی صاحبِ نسبت تنہا نہیں رہتا۔ اس کا ذوق پھر یہ ہوجاتا ہے جو میں نے ان اشعار میں بیان کیا ہے ؎ مری زندگی کا حاصل مری زیست کا سہارا ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا مجھے کچھ خبر نہیں تھی ترا درد کیا ہے یا رب ترے عاشقوں سے سیکھا ترے سنگِ در پہ مرناغیر اختیاری حزن و غم کی حکمت ارشاد فرمایا کہصاحبِ حزن اللہ تعالیٰ کی راہ کو جتنا جلد طے کرلیتا ہے اتنا جلد غیر صاحبِ حزن نہیں کرسکتا اسی لیے انبیاء علیہم السلام کو بھی حزن میں مبتلا فرمایا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ؎ اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں بسبب ان کے غم سے گُھٹنے کے۔ یہاں غم کی نسبت یعقوب علیہ السلام کی طرف فرمائی کہ فَھُوَ کَظِیْمٌ وہ غم کو دل ہی دل میں دبارہے تھے اور غم سے گُھٹ رہے تھے، اپنی طرف غم کو عطا فرمانے کی نسبت نہیں فرمائی ورنہ بندے ڈر جاتے اور ساتھ ساتھ ادب بھی سکھادیا کہ نقص کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ------------------------------