پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہو او روہ کشتیاں لوگوں کے موافق ہوا کے ذریعے سے لے کے چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اُٹھی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ آگھرے سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں اگر آپ ہم کو اس سے بچالیں تو ہم ضرور حق شناس بن جائیں۔(ترجمہ ازبیان القرآن) جہاں طوفان میں پھنس کر سفینہ ڈگمگاتا ہے وہیں قدرِ خدا و نا خدا معلوم ہوتی ہے سمندر کو دیکھ کر ایمان تازہ کرنا چاہیے کہ یا اللہ! آپ کی مخلوق اتنی بڑی ہے، اتنا پانی آپ کے سوا کون پیدا کرسکتا ہے۔ سمندر اللہ کی ایک بڑی نشانی ہے، آیتِ کبریٰ ہے۔ اتنا پانی کس نے پید اکیا اور اس میں پچاس فی صد نمک ڈال دیا، اتنا زیادہ نمک اللہ کے سوا کون پیدا کرسکتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس کی وجہ لکھی ہے کہ اگر سمندر میں نمک نہ ہوتا تو پانی سڑ جاتا اور اس کی بدبو سے سب مچھلیاں مرجاتیں اور ساحلی علاقوں پر بھی کوئی نہیں رہ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو زندہ رکھنے کے لیے سمندر میں نمک پیدا کردیا۔ انسانوں کی روزی کا بھی انتظام کیا اور سمندر کی مخلوق کی روزی کا بھی انتظام کیا۔ سمندر میں بڑی بڑی مچھلیاں ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دعوت کی کہ یا اللہ! میں تمام مخلوق کی دعوت کروں گا۔ ہزاروں دیگیں پکوائیں ایک مچھلی نکلی اور تمام کھانا کھاگئی۔حدیث تَوَدُّدْ کی مزید تشریح اس کے بعد حضرتِ والا نے حدیثاَلتَّوَدُّدُ اِلَی النَّاسِکی شرح دوبارہ شروع فرمائی اور فرمایا کہ حدیثِ پاک کا سبق سمندر کے کنارے دے رہا ہوں۔ یا اللہ! سمندر کے پانی کے قطرات کو، ریت کے ذرّات کو اور اتنے انسانوں کو قیامت کے دن گواہ بنادیجیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںاَلتَّوَدُّدُ اِلَی النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ؎ انسانوں کے ساتھ محبت کرنا آدھی عقل ہے یعنی دنیا میں جتنی عقل ہے اس کا آدھا حصہ یہی ہے کہ انسانوں سے محبت کی جائے، کوئی انسان اس سے تکلیف میں نہ رہے۔ التَّوَدُّدُ ------------------------------