پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہے جب یہ اَسّی برس کی بڈھی ہوجائے گی پھر اس پر جان دے گا؟ اس وقت بڑے بڑے عاشقوں کا عشق ٹھنڈا ہوجائے گا۔ اس لیے عشقِ مجاز ہمیشہ احمق اور گدھے کرتے ہیں جن کے دماغ میں گوبر بھرا ہوتا ہے اور جن کی زندگی جانوروں کی سی ہوتی ہے، جنہیں انجام کی اور اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی، لہٰذا عشقِ مجازی سے پناہ مانگو کیوں کہ یہ عشقِ حقیقی سے روک دیتا ہے۔ عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی جمع نہیں ہوسکتے، دونوں متضاد ہیں جیسے مولانا رومی نے فرمایا کہ چاند کے عکس کو پانی میں دیکھ کر اس پر فریفتہ نہ ہو ورنہ وہ تمہیں آسمان کے چاند سے محروم کردے گا کیوں کہ جب چاند کو لینے کے لیے پانی میں گھسوگے تو مٹی ہی مٹی ہوجائے گی اور عکس بھی غائب ہوجائے گا۔ عکس کو دیکھو گے تو اصلی چاند سے بھی محروم ہوجاؤ گے۔ اسی طرح عشقِ مجاز اللہ کی محبت سے محروم کردے گا اِلَّا مَنۡ تَابَ مگر جو توبہ کرلے وہ توبہ کی برکت سے بایزید بسطامی بن سکتا ہے مگر سچی توبہ کرے، یہ نہیں کہ توبہ کرلی اور پھر جان بُوجھ کر توڑ دی اگرچہ ہزاروں بار توبہ توڑنے پر اللہ تعالیٰ معافی پر قادر ہے لیکن معاف ہوجانا اور چیز ہے مگر برکتِ سلوک نہیں ملے گی۔حسن سے فرار سنتِ نبی ہے ارشاد فرمایا کہمیں امریکا جارہا تھا تو جرمن ایئر پورٹ پر لڑکیوں کے فتنہ سے میرے بعض دوستوں کے ایمان کو نقصان پہنچا۔ میں نے کہا کہ نگاہ بچاؤ کیوں کہ نگاہ کرنے سے لعنت برستی ہے لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎ ناظر اور منظور دونوں پر لعنت برسے گی اور لعنت کے ساتھ رحمت جمع نہیں ہوسکتی۔ رحمت لعنت کی ضد ہے۔ لعنت سببِ بُعد ہے اور رحمت سببِ قُرب ہے، قُرب اور بُعد میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدّین محال ہے۔ پس جو نگاہ خراب کرے گا اللہ کی رحمت سے محروم ہوجائے گا، اس لیے پہلے آنکھ کو بچاؤ تب کامیاب ہوجاؤ گے۔ سالک وہی کامیاب ہے جو عیناً قلباً اور قالباً حسینوں سے بھاگتا ہے۔ قالباً بھاگنا کہاں سے ثابت ہے؟ حضرت یوسف علیہ السلام ------------------------------