پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہیں۔ بس دو آیتیں یاد رکھو۔ اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّی نفس کے شر سے رحمت کا سایہ بچائے گا اور دوسری آیت ہے:وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ الخسے معلوم ہوا کہ اللہ کا فضل، اللہ کی رحمت جس پر نہ ہوگی وہ قیامت تک پاک نہیں ہوسکتا۔وَلٰکِنَّ اللہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو پاک کردیتا ہے اور مَنْ یَّشَآءُ میں یہ قید نہیں کہ تہجد گزار ہو، بہت سی خوبیاں ہوں، قاری ہو، حافظ ہو، عالم ہو، یہ کچھ ضروری نہیں، ضروری مَنْ یَّشَاءُ ہے جس کو اللہ چاہے، بس اللہ کا چاہنا کافی ہے۔گناہوں کی تمنا اور حسرت بھی قابلِ توبہ ہے اس کے بعد حضرتِ والا نے مولانامصطفیٰ کامل صاحب سے اشعار پڑھنے کے لیے فرمایا۔ مولانا نے حضرتِ والا کے اشعار پڑھنے شروع کیے اور جب یہ شعر پڑھا ؎ تیری مرضی پہ ہر آرزو ہو فِدا اور دل میں بھی اس کی نہ حسرت رہے توحضرتِ والا نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص بدنظری تو نہیں کرتا مگر حسرت ہوتی ہے کہ کاش کہ شریعت میں کوئی گنجائش ہوتی تو میں دیکھ لیتا، کاش کہ، کاش کہ، کاش کاش لگائے رہتا ہے کہ کاش! مل جاتی یا مل جاتا۔ یہ ’’ کاش کہ‘‘ علامت ہے اس کے نفس کی بدمعاشی کی، کاش بھی نہ ہونا چاہیے۔ گناہوں سے بھی توبہ کرو اور گناہوں کی حسرت اور تمنا سے بھی توبہ کرو تب ایمان کامل ہوگا۔ گناہوں سے توبہ کرنا ہی کافی نہیں ہے جب تک گناہوں کی تمنا اور خواہش بھی دل میں مکروہ ہوجائے۔ اس لیے ایسی تمناؤں اور ایسی حسر توں سے بھی اللہ سے معافی مانگ لو کہ یا اللہ تعالیٰ میں کیسا کمینہ انسان ہوں کہ دل میں گناہوں کی تمنا رکھتا ہوں، اے اللہ! مجھے معاف کردیجیے میں آپ کی نافرمانی کی لالچ اور حسرت سے بھی توبہ کرتا ہوں۔استقامت کی پہچان پھر حضرتِ والا کا مقطع پڑھا ؎