پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
درختوں کے کتنے قلم ہوں گے تو ساری دنیا کے درخت قلم بن جائیں اور یہ سمندر اور ایسے سات اور سمندر روشنائی بن جائیں تب بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف ختم نہیں ہوسکتی تو ہم اپنی دس بیس تصنیف کو جو اہمیت دیتے ہیں کہ واہ رے ہم واہ رے ہم! واہ رے میں واہ رے میں!یہ بکری کی طرح میں میں کرنا حماقت ہے۔ ہم اپنی محدود طاقتوں سے اللہ کی تعریف کا حق ادا نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات غیر محدود ہیں۔ ساری دنیا کے درختوں کے قلم بن جائیں اور یہ سمندر اور ایسے سات اور سمندر روشنائی بن جائیں تو کتنی کتابیں تیار ہوں گی؟ اتنی تم لکھ سکتے ہو؟ اس لیے اپنی کتابوں کو زیادہ اہمیت نہ دو۔ دینی خدمات کی دو حیثیت ہیں: ایک تو یہ کہ اللہ نے مجھ پر کرم کیا کہ مجھ سے دین کا کام لے لیا،یہ اللہ کا احسان ہے جس پر اُن کا شکر ادا کرتا ہوں لیکن دینی خدمات کو یہ حیثیت دینا کہ اللہ کا حق ادا ہوگیا سخت حماقت ہے۔ اللہ سے ڈرو اور یوں کہو کہ اے اللہ! میری تصنیفات، میری تالیفات، میری تقاریر آپ کی عظمت کا حق ادا نہیں کرسکتیں۔ مجھ کو اس آیت سے بہت فائدہ پہنچا۔ کبھی اپنے کمرے میں کتابوں کی قطار پر نظر پڑتی تھی تو خیال ہوتا تھا کہ ماشاء اللہ!بہت کام ہوگیا لیکن اب اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں لیکن یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ! آپ کی معرفت اور آپ کی تعریف کا کچھ حق ادا نہیں ہوا اور ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک ہزار برس کی بھی زندگی ملے تو سارے دنیا کے درختوں کے قلم اور سات سمندروں کی روشنائی سے کوئی لکھ سکتا ہے؟ ہزار برس کیا دس ہزار برس بھی زندہ رہے تو نہیں لکھ سکتا۔ میرے شیخِ اول حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ کرتے رہو اور ڈرتے رہو، نہ اتنا کرو کہ ڈرنا چھوڑدو اور نہ اتنا ڈرو کہ کرنا چھوڑ دو۔ واہ واہ اللہ والوں کی باتوں میں کیا اثر ہوتا ہے! فرمایا کہ اب دعا کرلیں تو مولانا عبدالحمید صاحب نے عرض کیا کہ بہت سے طلباء بیعت ہونا چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ جو بیعت ہونا چاہتے ہیں وہ میری قیام گاہ پر آئیں۔ کچھ تو چلیں، کچھ تو محنت کریں۔ ہم تو کراچی سے یہاں آئے یہ لوگ قیام گاہ تک آئیں، یہاں بیعت نہیں کروں گا۔ قیام گاہ پر ہی بیعت کروں گا۔