پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
مشرف ہے جیسے ایک عورت نے دوسری سے پوچھا کہ اے بہن! تیری شادی ہوگئی، تجھے کیا مزہ ملا؟ تو وہ کہنے لگی کہ وہ مزہ ملا جو بتا نہیں سکتی۔ جب تیری شادی ہوجائے گی تو تجھے خود معلوم ہوجائے گا کہ شادی میں کیا مزہ ہے۔ جیسے کتاب پڑھ کر کوئی شادی کا مزہ بیان کرنے لگے اور شادی نہ ہوئی ہو۔ یہی حال ان صوفیوں کا ہے جو بزرگوں کے الفاظ رٹے ہوئے ہیں، ناقلِ ملفوظات ہیں لیکن ان کے قرب کے مقامات کی ان کو ہوا بھی نہیں لگی اس لیے ملفوظات کے جمع کرنے پر ناز نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری مثال اس باورچی کی سی ہے جو دوسروں کو سوپ (Soup) پلائے اور خود محروم رہے۔ ہم لوگ ملفوظات جمع کرنے سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ولی اللہ ہوگئے حالاں کہ خاک ولی اللہ نہیں ہوئے۔ اپنے کو یہی سمجھو کہ ہم بزرگوں کی باتیں نقل کرتے ہیں مگر جو قُرب ان کی روح کو عطا ہے اس کی ہم کو ہوا بھی نہیں لگی۔ اگر وہ قرب عطا ہوجائے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ، اللہ ہے اور اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کو گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے، وہ گناہوں سے پناہ مانگتا ہے اور ہر وقت ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں مجھ سے گناہ نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائیں یہ علامت ہے کہ اس کو قرب کی ہوا لگ گئی اور گناہ تو کیا جب تک گناہ کی حسرت ہے کہ کاش!یہ جائز ہوتا تو ہم کرلیتے تو یہ علامت ہے کہ یہ شخص ابھی اللہ سے بہت دور ہے۔ گناہ بھی حرام ہے اور گناہ کی حسرت اور تمنا بھی حرام ہے۔ بس اللہ سے مانگو کہ یا اللہ! ہمیں گناہ کرنے سے بھی بچا اور اس کی حسرت سے بھی بچا۔ چہرہ سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس کے دل میں گناہ کی حسرت ہے اور جس کے دل میں حسرت بھی فنا ہوجائے اس کا چہرہ بتادیتا ہے کہ اس کا دل پاک ہوچکا ہے۔فنائیتِ حُسن کا مراقبہ کب مفید ہے؟ ارشاد فرمایا کہیہ سوچو کہ سب لڑکیاں اسّی برس کی بڈھیاں ہوگئیں اور بڈھیاں بے دام بُلارہی ہیں کہ آؤ ہم کو مفت میں Use کرو تو اس وقت یہی کہو گے کہ مائی! بس معاف کرو، اپنا مال اپنے پاس رکھو، اسی طرح جتنے حسین لڑکے ہیں سوچو کہ سب اسّی برس کے بڈھے ہوگئے اور بلارہے ہیں کہ آؤ ہمارے تربوز کو یوز (Use) کرو