پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ارشاد فرمایا کہدیکھو دو باتیں ہیں: ایک علم دوسری محبت۔ بعض میں علم کی فراوانی ہے مگر محبت کا نعرہ نہیں ہے، محبت کے نعروں سے وہ محروم ہے علم اس کی خالی زبان پر ہے اور ایک وہ اللہ والے ہیں کہ علم بھی خوب ہے مگر محبت کا نعرہ بھی رکھتے ہیں۔ میرے شیخِ اول حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ محبت کا نعرہ لگاتے تھے ’’یاربی! معاف کردیجیے‘‘ اکیلے ہوتے تھے، کوئی نہیں ہوتا تھا اور اختر کہیں کونے میں چھپا ہوا ہوتا تھا تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اللہ کو پکار رہے ہیں یا ربی! معاف فرمادیجیے۔ آہ! وہ باتیں یاد آتی ہیں (انتہائی درد بھرے لہجہ میں) فرمایا کہ ؎ جو یاد آتی ہے وہ زلفِ پریشاں تو پیچ و تاب کھاتی ہے مری جاں اورحضرتِ والا پھولپوری بہت بڑے عالم فاضل اور قابل تھے اور ایک واسطے سے مولانا گنگوہی کے شاگرد تھے۔ حضرت شاگرد تھے مولانا ماجد علی جونپوری کے اور مولانا ماجد علی صاحب شاگرد تھے حضرت گنگوہی کے اور حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے دیو بند کی صدرمدرسی کے لیے حضرت پھولپوری کا انتخاب کیا تھا جب حضرت تھانوی دیوبند کے سرپرست تھے۔ حضرت حکیم الامت نے لکھا کہ آپ کیاتنخواہ لیں گے تو حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ نے جواب میں لکھا کہ حضرت! میں کوئی تنخواہ نہیں لوں گا، چنے چباکر پڑھادوں گا۔ تو حکیم الامت تھانوی نے فرمایا کہ بے شک مجھے یقین ہے آپ ایسا ہی کرکے دکھادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے ایسے شیخ کے ساتھ مجھے سترہ سال رکھا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم ہے، ان کا احسانِ عظیم ہے۔تحدیثِ نعمت ارشاد فرمایا کہحضرت مولانا ابرارالحق صاحب نے اپنے بڑے بھائی جناب اسرار الحق صاحب مرحوم سے فرمایا کہ میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ پہلے زمانے میں اپنے شیخ کی خدمت میں لوگ زندگی وقف کردیتے تھے لیکن دیکھا نہیں تھا۔ اختر کو دیکھنے سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اس نے اپنے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری کی